تحقیقِ حدیث ایک مطلوب و مقصود چیز ہے، لیکن اگر تحقیقی اہلیت نہ ہو، اور اس کے تقاضوں پر توجہ نہ کی جائے تو تحقیق کی ایک خوشنما لفظ اور دلفریب خیال سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ انکار حدیث میں مبتلا لوگوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے، کہ وہ تحقیق کے نام پر گمراہ ہوتے اور دوسروں کو کرتے ہیں۔ کھرے کھوٹے کی تمیز تو ایک فطری تقاضا ہے، جو محدثین نے خوب نبھایا، لیکن تیرہ چودہ صدیاں جو بات ’کھری‘ قرار پائے، وہ اچانک کس منطق سے کھوٹی کہلائے گی؟ تیرہ صدیاں قرآن و حدیث اکٹھے ہیں، ابھی اچانک ان میں اتنا تضاد کہاں سے آگیا؟