پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی رحمہ اللہ
نامور قلم کار، مصنف، مترجم، استاذ العلماء، شیخ الحدیث حضرت العلام پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی جنہیں رحمہ اللہ لکھتے ہوئے دل رو رہا ہے۔ شیخ محترم کے علم میں پختگی اور گفتگو میں نرمی اور اخلاق میں حسن تھا۔ پچپن سے کتابوں اور رسائل پر آپ کا نام پڑھتے رہتے تھے، لیکن پچھلے سال دار المصنفین نے سلمان مرجالوی صاحب کی وساطت سے آپ کی ایک کتاب ’’ شرح حدیث ماذئبان جائعان ‘‘ شائع کی تو شیخ محترم سے ایک باقاعدہ تعلق کی اتبداء ہوئی۔ ایک دن راقم الحروف اور شیخ علی مرتضیٰ طاہر شیخ محترم سے ملاقات کے لیے الفیصل اسلامک سینٹر حاضر ہوئے اور آپ کی خدمت میں’’ لمحات ‘‘ کا ایک سیٹ پیش کیا۔ جس پر شیخ نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ پھرایک دن شیخ محترم دار المصنفین اردو بازار تشریف لائے اور سیرت کی ایک کتاب کے ترجمے کا مسودہ عطا کیا تاکہ دار المصنفین کی طرف سے اسے طبع کریں، جو دار المصنفین کے لیے ایک سعادت ہے۔ ہم نے اسے کمپوز کرایا، پچھلے ہفتے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے الیکشن کے سلسلے میں لاہور آنےکا پروگرام بنا تو شیخ محترم نے علی مرتضی طاہر کو فون کیا کہ میں آپ کے پاس آؤں گا، ہم انتظار کررہے تھے کہ شیخ نیازی اڈے اتر کر ہمیں فون کریں گے تو ہم وہاں سے رسیو کریں گے، لیکن شیخ محترم رکشہ پر بیٹھ کر دار المصنفین تشریف لے آئے۔ وہ ہمیں اپنے پاس تھیلہ رکھتے تھے، اس دفعہ اس تھیلے میں مسند ابو یعلیٰ کے ترجمہ کا رجسٹر تھا جو وہ کمپوزنگ کے لیے لائے تھے، ہمارے لیے اپنی کتابوں کا ایک سیٹ گفٹ بھی لائے، اس کے علاوہ مسند ابی داؤد الطیالسی کا جہازی سائز کا ایک نسخہ بھی ساتھ رکھا ہوا تھا جو دائرۃ المعارف عثمانیہ حیدرآباد کا طبع شدہ تھا اور کافی خستہ حالت میں تھا، فرمانے لگے یہ نایاب ہے، میں اسے طبع کرانا چاہتا ہوں، فرمانے لگے اس کی فوٹوکاپی کراکر اصل مجھے واپس کردیں اور فوٹو کاپی سے کمپوز وغیرہ کرالیں۔ میں نے دیکھا تو عرض کی حضرت یہ نسخہ تو سعودیہ سے طبع ہوچکا ہے اور میری لائبریری میں موجود ہے۔
انار کلی ہوٹل میں شیخ محترم کی ضیافت کی، میں نے اپنے یہاں چلنے کی پیش کش کی تو فرمانے لگے مجھے مولانا ارشد کمال صاحب کے پاس جانا ہے وہاں بعض احباب نے ملاقات کے لیے آنا ہے۔ میں نے عرض کی شیخ محترم میرے پاس رہائش کا بہترین انتظام ہے، اگر آپ میرے یہاں قیام کریں تو مجھے خوشی ہوگی، اسکیم موڑ پہنچے تو فرمانے لگے چلیں آج آپ کےپاس ہی قیام کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شیخ محترم مسند الطیالسی کا مطبوعہ نسخہ دیکھنا چاہتے تھے۔ میں نے مطبوعہ کتاب پیش کی، دونوں کو سامنے رکھ کر دیکھا تو فرمانے لگے یہ بالکل یہی ہے، لہٰذا اب اسے چھاپنے کی ضرورت نہیں ہے۔ رات کو محترم عبدالرافع صاحب بھی تشریف لے آئے، اور رات گئے تک شیخ محترم کی باتوں سے مستفید ہوتے رہے۔
نماز فجر کے بعد مسجد قدس اعوان ٹاؤن میں درس ارشاد فرمایا، ناشتے کے بعد مولانا ارشد کمال حفظہ اللہ کے ہاں ڈراپ کیا۔
یہ شیخ محترم کا لاہور میں آخری سفر تھا، جس میں میزبانی کی مجھے سعادت حاصل ہوئی۔
ایک مفکر سے کسی نے پوچھا: بڑا آدمی کون ہوتا ہے؟ تو اس نے کہا جس کی مجلس میں کوئی خود کو چھوٹا نہ سمجھے، یعنی وہ اپنے سےچھوٹوں کو بھی بڑوں جتنی عزت دیتا ہو۔ میں نے شیخ محترم کو ایسا ہی پایا کہ ان کی مجلس میں کوئی خود کو چھوٹا نہیں سمجھتا تھا، سب کو عزت اور احترام دیتے تھے۔۔۔ اللہ تعالیٰ شیخ محترم کی حسنات کو قبول کرے، سیئات سے درگزر کرے اور اگلی منزلیں آسان فرمائے۔
دعا گو ۔۔۔ عبدالرحمن عزیز