پر سکون زندگی اور پر تکلف زندگی میں فرق؟ مغرب کی بڑھتی ہوئی ترجیحات انہیں کس نھج تک لے گئیں؟

اگر ترقی یافتہ ممالک بلخصوص مغرب جہاں “کپٹیل” ہی خدا ہے اگر وہاں نشہ آور یا الکوحلک ڈرنکس اور دیگر دماغ کو سن کر دینے والی ادویات دستیاب نہ ہوں تو وہاں اموات کی سب سے بڑی وجہ خودکشی ہو ۔۔!

امریکہ کی ہی ایک ڈاکٹر بتارہی تھی کہ یہ جو آپ بیچز( beaches) پر خوش لوگ دیکھ رہے ہوتے ہو ان میں سے پچاس فیصد سے زائد اینٹی ڈپریشن کی دوا کھا کر آئے ہوتے ہیں تاکہ یہ اپنے زھنی خیالات کے آگے سرنڈر نہ ہوں۔ یہ حال ہے مغرب کا یا جہاں ویسٹ کلچر اور مغربی سماجیات ہیں!
مزے کی بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود اب بھی خودکشی کی سب سے زیادہ شرح مغرب میں ہی ہے اور وجہ؟

انہی مغربی فلاسفرز کے نزدیک انسان اصلاً اس دنیا(پلینٹ ارتھ) کا باشندہ نہیں ہے اور یہ زمین میں اگر نسلاً چلا آرہا ہے تو محض سروائیول کیلئے نہ کہ یہاں کے باشندے کی حیثیت سے ایزی ہوکر کوئی اقدامی پلان کرنے کیلئے آیا ہے!

اسی وجہ سے اگر کوئی انسان اپنے آپ کو اس سروائیو سے نکالنے کی کوشش کرتا ہے اور سمجھتا ہے اس نے اب ہر چیز حاصل کرلی ہے تو وہ اب خوب انجوائے کرسکتا ہے اور یہ تک سوچنا شروع کردیتا ہے کہ اب اسے اپنا فارغ وقت کن چیزوں میں گزارنا ہے یا اپنی زندگی کا مشغلہ کیا بنانا ہے جب نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ انسان اپنی خوشی کا فیصلہ بھی خود کرنے لگ جائے!
تو یہ شخص اپنی فطرت سے دور جاتے ہوئے کچھ ہی دیر میں اسکی will power لوز ہوجائیگی اسکا سارا ذھنی اور فکری سٹرکچر collapse کر جائیگا اور اسے یہ نہیں معلوم ہوسکے گا کہ اب اسے اپنا فارغ وقت کن چیزوں یا کاموں میں گزارنا ہے یا اسے اپنی خوشی کن کاموں میں حاصل کرنی ہے اور یوں یہ انسان خود اپنے ہاتھوں اپنے ذھنی خیالوں کا مقید بن جائیگا۔
چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ مغرب میں جہاں لوگ کیپیٹل اور جدیدیت سے آراستہ سھل ترین زندگی گزار رہے ہیں وہیں انکا یہ ڈوپامین بڑھتے بڑھتے ایک حد تک جاکر رک جاتا پھر اس سے آگے کوئی ایسی چیز یا ایڈوینچر نہیں رہتا جس سے انکا ڈوپامین اپنی خوراک پوری کرسکے نتیجتاً اسکے بعد دو ہی آپشن بچتے ہیں ایسے ہی تھکاوٹ،بیزاری اور مانند زندگی گزاری جائے یا پھر اپنے آپ کو عدم میں لے جانے کیلئے suicide کرلی جائے؟!

آپ بھی ذرا سوچیں کہ ایک غیر مذھبی شخص کیلئے جسکا نظریہ اسے کہتا ہے کہ ما بعد الموت کچھ بھی نہیں ہے وہ ایک بے مقصد اور بے معنی زندگی، مادیت اور سھل سے آراستہ تھکی اور بیزار زندگی کیونکر چاہے گا؟ جسکے ہاں زندگی کا مقصد ہی انجوائے کرنا تھا اب زندگی اسے وہ انجوائے ہی نہیں دے رہی جسکے لیے وہ اسے مبلغ اور منتھی سمجھتا تھا تو وہ اس زندگی سے نکلنا چاہے گا نہ کہ اسکی تکالیف اور بیزاریوں کو سہنے کا متحمل ہوگا.

اسکے برعکس مشرق میں خودکشی کی شرح مغرب کی بنسبت آدھے سے بھی کم ہے کیونکہ یہاں انسان کا اصلی مزاج “سروائیول” ابھی بھی موجود ہے مشرق کے لوگ اپنی زندگی میں اکثر ایڈوینچر کو face کرتے ہیں انہے فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ یہ سوچیں کہ اب اپنا وقت کیسے spend کریں یا اپنی زندگی کیسے گزاریں؟

انکی ایک ہی فکر ہے کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی بقاء کو کیسے محفوظ کریں اور کیسے اپنی نسل کی بقاء کی جنگ لڑیں اور دوسرا یہاں مذھب ہے مغرب میں زیادہ تر الحاد ہے اگر عیسائیت ہے بھی تو بے روح اور مردہ جسکا عیسائیوں کہ زندگی میں کوئی عملی دخل نہیں جبکہ مشرق میں بلخصوص مسلمانوں میں مذھب نقطہ نظر زندگی میں اھم ترجیحات رکھتا ہے

جب کہ اھل مغرب میں مذھب محض برائے نام یا صرف ظنی ڈھکوسلوں کا نام بن کر رہ گیا ہے وہ مذھب کے فلسفہ اجتماعیت کی بجائے لبرلزم کے فلسفہ انفرادیت پر ہیں جو انکو پہلے تنہا اور پھر ذھنی ویرانی کی طرف لیکر جاتا ہے جو بعد میں ایک اجڑی اور وحشتِ قلب سے بھری ہوئی زندگی کی صورت اختیار کر جاتی ہے انکے ہاں ایسی زندگی سے سکون کم جبکہ نقصان اور تکلیف زیادہ محسوس ہوتی ہے فلھذا یہ لوگ اپنی زندگی سے آؤٹ ہونے اور اپنے نہ ہونے کو ہونے پر ترجیح دیتے ہوئے اس ساری بیزاری اور ذھنی تھکاوٹ کا چند لمحوں کی موت کی تکلیف سے سودا کر دیتے ہیں اور مکمل مطمئن ہوکر اپنی جان دے دیتے ہیں اور اسکے لئے باقاعدہ انجیکشنز اور ایسی مشینز تیار کی جاچکی ہیں اور سونے پر سہاگا ان سو سائیڈ مشینز کو قانونی راستہ بھی دیا ہوا ہے..!

جس سے موت کی تکلیف اور اسکا دورانیہ کم ہوجاتا ہے.اسی طرح کی ایک سوسائیڈ مشین جو سویزر لینڈ میں قانونی حیثیت رکھتی ہے جسکو ڈاکٹر ڈیتھ بھی کہا جاتا ہے سویزر لینڈ کے ڈاکٹر نے یہ مشین تیار کی ہے جس میں آکسیجن کو ریڈیوس کرکے چند سیکنڈ میں انکے دعویٰ کے مطابق بلا تکلیف موت دی جاسکتی ہے۔

بہرحال مجھے تو اس پر شیخ ابراہیم ذوقؔ (1790 – 1854) کا شعر یاد آجاتا ہے

” اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ”

 

عمیر رمضان