الحمدللہ، ایک بار پھر پورے عالم اسلام کے اکثر مسلمانوں نے پوری محبت اور محنت سے قرآن مجید سارا پڑھ لیا، مگر اس طرح کہ قرآن مجید میں کیا لکھا ہے؟ اس حوالے سے ان کے علم میں کسی ایک بات کا بھی اضافہ نہ ہوسکا، خالق ان سے دراصل کہتا کیا ہے؟ اس بات کا انھیں پتہ نہ چل سکا۔ اللہ تلاوتیں قبول فرمائے مگر اگلے رمضان کی تلاوت تک کوشش کیجئے کہ قرآن کو سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا کر لیں۔ فہم قرآن کو ہم نے مشکل سمجھ کے ہمیشہ یہ کہنے پر اکتفا کیے رکھا ہے کہ دعا کیجئے اور یہ کہتے وقت خود ہمارا اندر کہہ رہا ہوتا ہے کہ ہمارے ہی حق میں ہماری یا کسی کی بھی یہ قبول نہیں ہوگی:
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
اگر خود کو دھوکا دینے کی کوئی سزا ہوتی تو اس معاملے اکثر لوگ عدالت میں مجرم قرار پا چکے ہوتے، چلئے دنیا میں نہ سہی اخروی عدالت تو زیادہ دور نہیں، اس میں جوابدہی تو ہوگی، کہ قرآن تلاوت کیلئے تو نہیں آیا، اصلا تو یہ تفہیم کیلئے آیا ہے۔ دراصل قرآن سے زندگیوں میں اترتے انقلاب کو تالے تو ہم نے خود لگا رکھے ہیں، تقریریں ہماری ساری یہ کہ یہود و نصاری اپنا کام چھوڑ کے 24 گھنٹے ہمارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، کرتے ہوں گے مگر اس سے بڑی کوئی نہیں جو قرآن سے دور رکھ کر خود اپنے خلاف سازش کر رکھی ہے۔
خیر، اب تو قرآن فہمی کے متعدد آسان ترین اسلوب سامنے آ چکے ہیں۔ ویسے بھی صرف ایک آیت روزانہ ترجمہ و تفسیر معمول بنا لیں تو کیا مشکل ہے؟ ہر روز قرآن سے تعلق بھی جڑے گا، برکت بھی آئے گی، سوچ بھی نکھرے گی، شعور بھی بڑھے گا، کوئی سی بھی آسانی سے سمجھ میں آنے والی تفسیر لے لیں، آج کل تو ان پڑھوں اور مصروف لوگوں کے لیے بھی بڑی آسانی ہوگئی ہے۔ کسی مفسر کی ویڈیو سننا شروع کر دیں، روزانہ ایک یا جتنی ممکن ہوں آیات سننا معمول بنا لیں، پیغام ٹی وی پر پنجاب یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر محمد حماد لکھوی حفظہ اللہ کی تازہ ترین ، پر تاثیر اور آسان فہم تفسیر ہر ہفتے نشر ہوتی ہے، یہ تفسیر ابھی جاری ہے، سابقہ ساری پیغام ٹی وی کے یو ٹیوب چینل پر اپلوڈڈ ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا انداز بڑا منفرد، معصومانہ اور متاثر کن ہے۔ ہو بھی کیوں نہ، ساری زندگی ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی لیول کے سکالرز کو پڑھایا، خود جدید و قدیم پر ماہرانہ اور مخلصانہ دسترس ہے۔ روحانی، سیاسی، جہادی علمی اعتبار سے کثیر الجہت حیثیثات کے حامل خانوادے کے فرزند ہونے کے ناطے قرآن پر منفرد انداز میں تدبر کے طفیل روایت و درایت ان کے بیان سے صبح صادق کے نور کی طرح چھلکتے ہیں۔ ان کے محیرالعقول خانوادے کو جاننا ہو تو مشہور مورخ اسحاق بھٹی صاحب کی مستقل کتاب “تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمۃ اللہ علیہ: حالات، خدمات خاندان” دیکھنا چاہئے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ تفسیر پنجاب یونیورسٹی کے شیخ زید اسلامک سنٹر کے شاندار آڈیٹوریم میں ریکارڈ ہوتی اور لائیو نشر ہوتی ہے۔ یعنی موقع پر جا کے یا گھر بیٹھے بھی استفادہ ممکن ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ تفسیر کی فکری و روحانی ضیافت کے بعد بڑا لذیذ ناشتہ بھی لذت کام و دہن کے لیے پیش کیا جانا مستقل معمول ہے۔ اللہ جزائے خیر دے، جن مخلص احباب نے یہ سلسلہ جاری فرما رکھا ہے۔ ہر اتوار صبح نو بجے تفسیر کا آغاز ہو جاتا ہے، تفسیر کے آخر میں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوتا ہے۔ مرد وزن کے لیے قربت قرآن کی اس بابرکت محفل میں شرکت کا باپردہ اہتمام ہے۔ یہی سیشن بعد ازاں ٹی وی پر بھی نشر ہوتا ہے۔ یعنی ہر اتوار فیملی سمیت ایک ڈیڑھ گھنٹہ قرآن کو با آسانی دیا جا سکتا ہے اور دیا جانا چاہئے۔ کاش لوگوں کو قرآن کی اور اس مجلس کی حیثیت کا احساس ہوتا تو وہ دور دراز سے باجماعت ہر اتوار یہاں شرکت کیلئے آیا کرتے۔ کم از کم ایک دفعہ تو مختلف اداروں سے طلبا اور عام لوگوں کو یہاں کا وزٹ کرنا چاہئے ، پھر قرآن اور ڈاکٹر صاحب کا بیان معمول بنا دے تو ٹھیک وگرنہ ایک مجلس قرآن بھی کوئی شرمندگی اور خسارے کا سودا تو نہیں۔ڈاکٹر صاحب کے حوالے سے یہ عاجز تو ذاتی طور پر قائل، مائل بلکہ گھائل ہے کہ آپ ان کے بیان القرآن سے کسی صورت بور اور غیر متوجہ نہیں رہ سکتے۔ خدا کی عطا سے ان کے لہجے میں لفظ سے پہلے تاثیر اترتی ہے۔ اللہ جزائے خیر دے، پورا رمضان انھوں نے پیغام کی لائیو افطار ٹرانسمیشن میں شرکت فرمائی، ہر روز مختلف موضوعات پر بات کی، اور جس ریسرچر کی اس دوران علمی طور پر پری ویو کی ذمے داری تھی، آخر رمضان میں انھوں نے ہر موضوع پر ڈاکٹر صاحب کی ماہرانہ گرفت اور پر تاثیر بیان کا ناصرف اعتراف بھی کیا بلکہ اپنے خالص جذبات کے حوالے سے اس پر پوسٹ بھی لکھی، ذاتی تجربہ کے بعد میرے لیے یہ خارجی گواہی اس لیے اہم اور قابل توجہ تھی کہ یہ بجائے خود ایک فاضل مدینہ سکالر شخصیت کی گواہی تھی، یعنی محترم ہاشم یزمانی حفظہ اللہ تعالٰی کی۔ خیر ڈاکٹر صاحب کے متعلق زیادہ بات اس لیے آگئی کہ علمی، تعلیمی اور روحانی روایت میں رہتے ہوئے جدید ترین تفسیر انھی کی بیان ہو رہی ہے اور دوسرے ابھی ابھی ان کو سنا بھی ہے تو ذہن اس طرف مائل اور متوجہ ہوگیا، وگرنہ آپ اپنی سہولت کے لیے فہم قرآن کا کوئی اور بھی بندوبست کر سکتے ہیں، جو بھی آپ بہتر سمجھتے ہوں وہی کر گزرئیے لیکن خدا کیلئے خود پر کائنات کے سب سے مقدس فہم یعنی قرآن کے فہم کے در بند نہ کیجیے۔ اپنے شعور و ادراک میں فہم قرآن کے گلاب کھلنے اور موتیا مہکتے پر خود ہی پابندی مت لگائیے کہ یہ ابو بکر کی نہیں ،ابو جہل کی سنت اور روش ہے۔ کچھ روز ایسا کر گزرئیے ،پھر دیکھئے کہ فہم و ادراک ہی نہیں، زندگی کے سارے تیور مہک اٹھیں گے،نئی نسل کے دین و اخلاق سے دوری کے شاکی والدین خصوصا اس طرف توجہ دیں، بعد میں والدین کے رونے کی کوئی حیثیت نہیں کہ بچے الحاد سے متاثر ہو رہے ہیں، اگر آپ نے اپنی ذمے داری کے وقت کم از کم انھیں قرآن فہمی سے نہ جوڑا تو۔ خدا ہمیں اپنی آخری الہامی کتاب پڑھنے، سننے اور اس کے بحر بیکراں سے موتی سمیٹنے والوں میں سے کر دے، پھر خدا ہماری زیست قرآن کے مطابق کر دے۔ اللہم آمین!

یوسف سراج