ابا جی رحمہ اللہ سے ایک مرتبہ پوچھا تھا کہ: “رشتوں کو سب سے زیادہ کیا چیز مسموم کرتی ہے؟
کہنے لگے جگ بیتی جواب دوں یا تن بیتی جواب۔”
بلا ساختہ منہ سے نکلا تن بیتی جواب چاہیے، جگ بیتی جواب بعد میں سہی یا کسی اور سے سہی۔
کافی دیر چپ رہے اور جب بولنے لگے تو آواز کچھ بھاری سی تھی شاید میرے سوال نے انہیں ماضی کے کسی تلخ لمحے تک پہنچا دیا تھا۔ کہنے لگے:
پتر جی!
جب کوئی انسان اپنے کانوں سے سننا چھوڑ دے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چھوڑ دے اپنی زبان سے بات کرنا چھوڑ تو رشتوں میں ایسی ایسی زہرناکیاں در آتی ہیں کہ عمریں ختم ہو جاتی ہیں ان زہروں کا تریاق نہیں ہو پاتا۔
میرے پاس ان دنوں کتابی علم زیادہ ہوتا تھا مشاہداتی علم نہ ہونے کے برابر، اس لیے نہ سمجھ سکا پھر ایک سوال داغ دیا کہ یہ کیسے ممکن ہیں کوئی انسان اپنے کان ، آنکھ اور زبان کسی اور کو دے دے۔
کہنے لگے پتر جی کوئی کسی کے کان بھر دے تو کہانی ختم ہو جاتی ہے پھر کانوں کا کچا وہی سنتا ہے جو اس کے کانوں میں امرت دھارا سنایا گیا ہو پھر وہ وہی دیکھتا ہے جو بہار اسے دکھائی گئی ہو اور وہ وہی بولتا ہے جو جملے الفاظ اس کے منہ میں ڈالے گئے ہوں۔
کہنے لگے پتر جی! اصل مسئلہ یہ نہیں ہے بلکہ اس سے بھی اگلی کہانی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسا بندہ اپنے کانوں، آنکھوں اور زبان کو اپنا ہی سمجھے نہ صرف سمجھے بلکہ سمجھنے کو باور بھی کروائے تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔
پوچھا سب سے زیادہ کان کون بھرتا ہے کہنے لگے ہے تو حقیقت لیکن “ماں” بہو کے خلاف بیٹے کے کان بھرتی ہے تاکہ بیٹا اس کا رہے۔
“بیوی” ساس نند بہن بھائی کے خلاف شوہر کے کان بھرتی ہے کیونکہ وہ شوہر کو اپنا نہیں بنانا چاہتی بلکہ اسے اپنی ملکیت میں رکھنا چاہتی ہے ہر وہ رشتہ جہاں اس کے مفادات پر ضرب پڑے وہاں وہ یہ حربہ استعمال کرتی ہے۔
ویسے تو اور رشتے بھی کان بھرنے کے ماہر ہوتے ہیں لیکن ان دو رشتوں کے اثرات باقی سب پر بھاری ہوتے ہیں۔
خدارا !
ایک بات یاد رکھیے گا
آپ کی لگائی بجھائی سے اگر کوئی فرد قطع رحمی کا مرتکب ہو گیا تو اس کے نتیجے کا آغاز اسی دنیا سے شروع ہوجاتا ہے آخرت کا بھگتنا تو ہے ہی۔
سوچیں بار بار سوچیں کہیں میں اور آپ کہیں اس جرم کا ارتکاب تو نہیں کر رہے۔

ڈاکٹر شاہ فیض