سیکولرازم کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھارت کا حقیقی چہرہ بڑا ہی مہیب اور ہول ناک ہے، شقی القلب ہندو بنیے کی سوچ اور فکر میں جتنی مذہبی عناد و بغض کی آلایشیں موجود ہیں، اتنی دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے دل میں موجود نہیں۔ بھارت میں اقلیتوں پر جبر و تشدد کیا جاتا ہے، وہاں مسلمانوں کی تعداد پاکستان میں موجود مسلمانوں سے سے بھی زیادہ ہے مگر 90 کروڑ ہندوؤں نے ان کا سانس لینا دوبھر کر رکھا ہے، مسلمانوں پر ظلم و سربریت اور نفرت و حقارت کو سیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، 2024 ء بھارت میں بھی انتخابات کا سال ہے سو مسلمانوں کے خلاف بھارتی سیاسی جماعتیں سرگرم ہوتی جا رہی ہیں۔ انتخابات، پاکستان میں بھی ہونے ہیں مگر یہاں کسی ایک ہندو کے خلاف بھی تشدد تو کجا، نفرتوں پر مشتمل چند حروف تک کسی سیاسی راہ نما یا کسی جماعت کے کارکن نے ادا تک نہیں کیے۔
حُسین نامی نابینا شخص کرناٹک کے شہر گنگاوتی پیدل جا رہا تھا کہ دو ہندو بدمعاشوں نے اسے اغوا کر لیا، اس اندھے شخص پر تشدد کیا، اس کی ڈاڑھی شیشے کی ٹوٹی ہوئی بوتل کے ٹکڑوں سے کاٹنے کی کوشش کی، ناکامی پر ڈاڑھی جلا ڈالی، خون آشام ہندوؤں نے اس سے جے شری رام کے نعرے لگوائے۔ بھارتی ہندو بد ترین منافق ہیں۔جہاں زیب ساحر کے اشعار ہیں:-
یہ اپنے دَور کے سب سے بڑے منافق ہیں
اسی لیے تو زبانوں سے خون بہتا ہے
نہ جانے کتنے زمانے گزر گئے ساحر
نہ جانے کتنے زمانوں سے خون بہتا ہے
2024 ء میں ہونے والے انتخابات کی وجہ سے جان بوجھ کر مختلف بھارتی ریاستوں میں مسلم مخالف جذبات بھڑکائے جا رہے ہیں۔جن ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے وہاں مسلمانوں کے خلاف تقاریر شروع کر دی گئی ہیں۔مدھیہ پردیش اور گجرات میں اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ کیا جا رہا ہے۔
یہ واشنگٹن ڈی سی کی تنطیم ” ہندوتوا واچ ” کی رپورٹ ہے کہ بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں کی جانے والی نفرت انگیز تقاریر کا خاص مقصد، انتخابات میں جیتنا ہوتا ہے۔2023 ء کے پہلے چھے مہینوں کے دوران بھارت میں ایسے بہت سے واقعات دیکھنے میں آئے جب نفرت انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم نے مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو مصائب و آلام میں مبتلا کر دیا، کٹر ہندو راہ نما کاجل سنگلا عرف ” کاجل ہندوستانی “ مسلم خواتین کے خلاف زہر افشانی کرتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے بھارتی ریاست گجرات میں فسادات بھڑکانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔مارچ کے آخر میں بھی بھارت کی مشرقی ریاست بہار میں شوبھا یاترا کے جلوس کے دوران مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز اور نفرت آمیز نعرے لگائے گئے تھے۔جون میں کولھا پور اور مہاراشٹر میں مسلسل حقارت آمیز تقریر کے نتیجے میں مغربی ریاست میں پُر تشدد جھڑپیں بھی ہوئی تھیں، شمالی ریاست اتراکھنڈ میں ہندو سازشوں کے نتیجے میں کئی حصوں سے مسلمانوں کو بے گھر کر دیا گیا۔مسلمانوں کو خوف زدہ اور ہراساں کرنے کے لیے ان کی دکانوں اور گھروں پر سیاہ رنگ سے کراس کے نشانات بنا دیے گئے۔
خود کو سیکولر کہلوانے والے بھارت کا مکروہ چہرہ مزید دیکھیے اور ” اینٹی مسلم ہَیٹ سپیچ ریلیز اِن انڈیا ” کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ پڑھ لیجیے ” 2023 ء کے پہلے چھے مہینوں میں 17 ریاستوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی 250 سے زیادہ نفرت انگیز ریلیاں نکالی گئیں “ اسی رپورٹ کے مطابق ان ریلیوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی خطرناک سازشی نظریات کا پرچار اور تشدد، اسلحہ سازی اور سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا “ بھارتی سیکولرازم کا دعویٰ بڑا ہی بھیانک ہے، سیکولرازم کے بجائے بھارت مکمل طور پر متشدد ہندو ازم کے نرغے میں ہے۔بھارت میں دہشت گرد ہندوتوا کا راج ہے، جو مودی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد مزید پروان چڑھ رہا ہے۔ مودی حکومت نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے اور ہندو انتہا پسندوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے یہ اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اقلیتوں کو بھارت میں سُکھ کی سانسیں نہ لینے دیں۔ یہ غنڈے بھی اپنی اس جنونی ذمے داری کو خوب نبھا رہے ہیں اور مسلمانوں پر تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
بھارت میں مسلمانوں پر اس قدر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں کہ کلیجا منہ کو آتا ہے۔ انسانیت سوز مظالم کے ساتھ ان کے گھروں کو گرا دیا جاتا ہے، مساجد کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور انھیں شہید کردیا جاتا ہے۔ بابری مسجد جیسی تاریخی مسجد کو فقط رام کی ” جائے پیدایش “ قرار دے کر شہید کردیا گیا، بابری مسجد ” رام کی جائے پیدایش “ ہے، اس کا کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں مگر بھارتی عدالتیں بھی انتہائی متعصب ہیں اور کسی ثبوت کے بغیر اسے درست قرار دیتی رہی ہیں۔
لوّ جہاد، لینڈ جہاد، حلال جہاد اور کاروباری جہاد جیسے نظریات کو ابھارنے کا مقصد ہندوتوا کے ذریعے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔دہلی میں قائم ایک سماجی و ثقافتی تنظیم ” ایکٹ ناؤ فار ہارمنی اینڈ ڈیموکریسی “ تسلیم کرتی ہے کہ ” 2014 ء میں مرکز میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور جرائم میں نمایاں اضافہ ہوا ہے “
بھارتی ہندو کی سوچ بہت ہی نیچ ہے، وہ کم ظرف بھی ہیں اور اوچھے بھی، وہ اس قدر حقیر اور منفی جذبات دل میں پال پوس چکے ہیں کہ کسی اندھے مسلمان پر بھی تشدد سے گریز نہیں برت رہے، ان کے اسی غلیظ کردار کی وجہ سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا اور اگر بھارت میں اقلیتوں پر تشدد بند نہ کیا گیا تو بھارت مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔وہاں کئی ریاستیں آزاد ہو سکتی ہیں، آج نہیں تو کل، ایسا بہ ہر حال ہونا ہے۔( ان شا ء اللہ ) احمق پھپھوندوی نے کیا خوب شعر کہا ہے:-
یہ کَہ رہی ہے اشاروں میں گردشِ گردوں
کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے

( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )