_*پہلا شبہ*_: پندرہویں شعبان کی شب، اور اس میں مختلف اعمال انجام دینے کی فضیلت میں بہت سی حدیثیں وارد ہیں، ان تمام حدیثوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ثابت ہوتا ہے کی شب برات عبادت کیلئے ایک مخصوص رات ہے.
*جواب*: قرآن و حدیث کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ان کے بعد آنے والے علماء کرام حدیث کو پرکھنے کا جو میزان ومعیار بنایا ہے جس پر متقدمین ومتاخرین محدثین کا اتفاق ہے اس کے مطابق یہ تمام روایتیں ضعیف قرار پاتی ہیں، نیز فن حدیث ورجال، جرح وتعديل اور نقد وعلل کے ماہرین بھی ان تمام احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ “إذا صح الحديث فهو مذهبي”(1)، یعنی جب حدیث صحیح مل جائے تو وہی میرا طریقہ اور مذہب ہے، مطلب یہ کہ امام صاحب رحمہ اللہ بھی ضعیف احادیث کو قابل عمل نہیں مانتے تھے.
_*دوسرا شبہ*_: فضائل کے باب میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا تو جائز ہے۔
*جواب*: ضعیف حدیث کا مطلب یہ ہوتا کہ جو بات ضعیف حدیث میں ہے وہ نبی سے ثابت نہیں، اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہی نہیں ہے تو غیر ثابت شدہ بنیاد پر کسی عمل کو فضیلت کیسے مل سکتی ہے، نیز یہ کہ کوئی بھی مسلمان نیک عمل اس لئے کرتا ہے کہ اسے اجرو ثواب حاصل ہو، لیکن اگر اس عمل کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ثبوت ہی نہیں ملتا تو اس پر اجرو ثواب کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟۔
شریعت اسلامیہ میں کسی بھی عمل کے قبول ہونے کیلئے دو شرط ہے، ایک یہ کہ وہ عمل صرف رب کی رضا کیلئے کیا جائے، اور دوسری شرط یہ کہ وہ عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق ہو، چناں چہ جس عمل کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتی ہی نہیں اس کو نبی کے طریقے پر انجام دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چہ جائیکہ قبولیت اور عدم قبولیت کی بات کی جائے۔
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد”(2).
مفہوم حدیث: جو کوئی ایسا عمل کرے جس کے کرنے کی دلیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور اقرار سے نہیں ملتی ہو تو وہ عمل مردود اور بے کار ہوجاتا ہے۔
_*تیسرا شبہ*_: حدیث ضعیف ہونے کے باوجود بھی حدیث ہی کہلاتی ہے، تو اس پر عمل کرنا کیوں ممکن نہیں؟ کیا کسی کا باپ ضعیف ہوجاتا ہے تو اس کو باپ کہنا چھوڑ دیتا ہے یا پھر اس کو گھر سے باہر نکال دیتا ہے؟ تو پھر حدیث ضعیف ہوتی ہے تو اس پر عمل کیوں چھوڑ دیا جاتا ہے، اور اس کا شمار حدیث رسول میں کیوں نہیں ہوتا؟
*جواب*: ضعیف حدیث تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہی نہیں، تو پھر ضعیف حدیث کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان کر اس پر عمل کرنے کا کیا مطلب؟
اور کسی کے والد کہاں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کہاں؟ کسی کے والد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے برابر کیسے قرار دے دیا؟
نیز یہ کہ باپ بوڑھا ہوجاتا ہے تو باپ ہی رہتا ہے، بڑھاپے کی وجہ سے رشتہ نہیں ٹوٹتا، لیکن حدیث جب ضعیف ہوتی ہے تو وہ نبی کی بات نہیں رہتی، اور ضعیف ہونے سے اس کا رشتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹوٹ جاتا ہے اس لئے ہم اسے قابل عمل نہیں سمجھتے۔
_*چوتھا شبہ*_: وہابیوں کے ایک مولانا صاحب نے شب برات کی فضیلت میں ایک حدیث کو قابل عمل قرار دیاہے، پھر یہ لوگ کیوں نہیں مانتے؟
*جواب*؟ : وہ شیخ البانی رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے اس حدیث کو حسن لغیرہ قرار دیا ہے، لیکن آپ کا یہ کہنا کہ انہوں نے قابل عمل قرار دیا ہے یہ صحیح نہیں، البتہ جس حدیث کو انہوں نے حسن کہا ہے دوسرے بہت سے علماء نے اسے سخت ضعیف بھی قرار دیا ہے، اس لئے یہاں پر یہ دیکھا جائے گا کہ حدیث کی تصحیح وتضعیف کے جو قواعد ہیں اور اس کے پرکھنے کا جو میزان ہے اس کے مطابق کن علماء کا قول راجح ہے.
اور اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث حسن درجہ کی ہے تو اس سے شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت تو ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اس رات عمل کرنے کی فضیلت ثابت نہیں ہو سکتی، کیونکہ کسی رات کی فضیلت ثابت ہونے سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ اس رات میں عبادت کی جائے؟
مثال کے طور پر جمعہ کے دن اور اس کی رات کی بہت زیادہ فضیلت حدیث میں آئی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جمعہ کی رات کو مخصوص عبادات کیلئے خاص کر لیا جائے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص کر جمعہ کی رات اور اس کے دن کو عبادت کیلئے مختص کرنے کو منع فرمایا ہے، معلوم ہوا کہ ہر فضیلت عبادت کو مستلزم نہیں ہوتی، کیوں کہ اگر کسی دن یا رات کی فضیلت کی بنیاد پر عبادت کی جاتی تو جمعہ اس کا سب سے زیادہ حقدار تھا۔
دوسری بات: جس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حدیث بیان فرمائی انہوں نے اس پر خود کیسےعمل کیا اور ان کے جاں نثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیسے عمل کیا؟، کیا انہوں نے پوری رات جاگ کر عبادت کی؟ کوئی مخصوص نماز ادا کی؟، یا اور دیگر عبادتیں کیا کرتے تھے جیسا کہ آج کل لوگوں کے درمیان رائج ہے؟
پورا ذخیرہ حدیث کھنگال لیجئے کہیں پر بھی صحیح سند سے ایک حدیث بھی نہیں ملے گی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اس رات میں مخصوص عبادت یا اوراد و اذکار انجام دیتے تھے.
تیسری بات: جس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے اس حدیث میں جس عمل کی ترغیب دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جو شرک وبدعات اور قطع رحمی سے بچے گا اسے آج کی رات رب کی مغفرت حاصل ہوگی۔
لیکن جو آج ہی کی رات بدعات کو انجام دے، اور اپنی جانب سے ان اعمال کو بجالائے جس کا ثبوت نہ کتاب وسنت سے ملتا ہے اور نہ ہی سلف صالح کے عمل سے تو وہ اس حدیث کا نہ تو مصداق بن سکتا ہے اور نہ ہی اس حدیث سے استدلال کرنے کا اہل ہے، کیوں کہ بدعت کرنے والے اس حدیث میں ذکر کی گئی فضیلت سے محروم ہیں۔
_*پانچواں شبہ*_: اس رات میں ہم وہی عمل کرتے ہیں جس کی شریعت میں اصل موجود ہے، جیسے، نوافل، دعاء و استغفار، تلاوت قرآن، صدقہ و خیرات اور زیارت قبور وغیرہ، تو پھر اسے بدعت کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟
*جواب*: اگر کوئی اذان دے اور اذان کا آخری جملہ “لا الہ الا اللہ” کہنے کے بجائے ” اشہد ان لا الہ الا اللہ” کہے ، اور دلیل دے کہ اس جملہ کی اصل شریعت میں موجود ہے جیسے کلمہ شہادت، بلکہ اذان میں بھی یہ جملہ موجود ہے، تو کیا اس کی اس دلیل کی بنیاد پر اس اضافے کو صحیح گردانا جا سکتا ہے؟
آپ کہیں گے کہ بالکل بھی نہیں، نیز آپ دلیل یہ دیں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سکھایا ہی نہیں تو پھر اپنی جانب سے اضافہ کیسے درست ہو سکتا ہے ؟ یہ تو نبی کی صریح مخالفت ہوئی۔
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی پندرہویں شب کے لئے کسی عبادت کو خاص نہیں کیا، اور نہ ہی امت کو یہ حکم دیا کہ اس رات میں انفرادی یا اجتماعی عبادت کرے، تو پھر کوئی پندرہویں شعبان کی شب کو عبادت گذاری کرے اور کہے اس کی اصل شریعت میں آئی ہے، کیا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت نہیں؟
نیز اگر کوئی نماز میں سوره فاتحہ قیام کے بجائے تشہد میں پڑھے اور کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا ہے، کیا اس کا یہ عمل صحیح ہوگا؟
آپ کہیں گے کہ بالکل بھی نہیں، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم ضرور دیا ہے ، لیکن کوئی اپنی مرضی سے کہیں بھی نہیں پڑھ سکتا بلکہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ جس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھنے کا حکم دیا وہ اس سورة کو کہاں پڑھا کرتے تھے، چنانچہ نماز میں جس مقام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو پڑھا ہے وہیں پر پڑھنا مشروع ہوگا، دوسرے مقامات پر پڑھنا نبی کی مخالفت کے ساتھ ساتھ بدعت وضلالت کا پیش خیمہ ہے۔
ٹھیک اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہویں شب کی فضیلت ضرور بیان کی، لیکن ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت بیان کرنے پر اکتفا کیا یا کوئی عمل بھی کیا، اگر اس رات کو کسی عمل کا ثبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے موجود ہے تو اس عمل کو ہم ویسے ہی کریں گے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور اس کا حکم دیا، لیکن اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس رات میں کسی عمل کی کوئی دلیل نہیں ملتی تو ہم صرف فضیلت پر اکتفا کریں گے، اور اس فضیلت کو ویسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے، اور وہ یہ کہ شرک وبدعات سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے اور اپنے عزیز واقارب سے گلے شکوے دور کئے جائیں تو مذکورہ فضیلت حاصل ہوگی، بصورتِ دیگر وہ نبی کا مخالف ٹھہرے گا۔
_*چھٹا شبہ*_: اس رات کا ذکر قرآن میں بھی آیا جیسا کہ سورہ دخان کی ابتدائی آیات اسکی واضح دلیل ہیں، اور بعض مفسرین نے لیلہ مبارکہ سے مراد شعبان کی پندرہویں شب قرار دیا ہے۔
*جواب*: اللہ رب العالمین نے اس آیت میں نزول قرآن کے وقت کا تعین کیا ہے، اور قرآن جس مہینے اور جس رات میں نازل ہوا اللہ رب العالمین نے خود اس کا ذکر کردیا ہے، وہ مہینہ رمضان کا تھا جس میں قرآن نازل ہوا تھا، جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ہے، اور جس رات قرآن مجید نازل ہوا وہ لیلۃ القدر ہے جوکہ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے، جیسا کہ سورۃ القدر میں اللہ رب العالمین نے فرمایا: “ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے”.
اور کون نہیں جانتا کہ لیلۃ القدر شعبان کے مہینہ میں نہیں بلکہ رمضان المبارک کے مہینہ میں ہوتی ہے.
اس سے یہ متعین ہوجاتا ہے کہ سورہ دخان کی ابتدائی آیات سے مراد لیلۃ القدر ہے نہ کہ شب برات، اب رہی بات کہ بعض مفسرین نے اس کی تفسیر شعبان کی پندرہویں شب سے کی ہے، تو اکثر مفسرین نے اس کی تفسیر لیلۃ القدر سے بھی کی ہے، اورمفسرین کے درمیان کے اختلاف کو کتاب وسنت پر پیش کریں گے، کتاب وسنت جس تائید کرے وہی حق ہے، اور کتاب وسنت لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر بتاتی ہے اور یہی حق ہے۔
واللہ اعلم بالصواب

…………………………………………………….
(1) الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین (67/1).
(2) صحيح مسلم (1718/1343/3).
(3) صحيح مسلم (1144/801/2).

ابو احمد کلیم الدین یوسف
(جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ)