وقت کس تیز رفتاری سے گزرتا ہے۔ فیس بُک میموری نے بھی یاد دلایا کہ آج ہی کی تاریخ تھی، 15 اکتوبر 2022 جب ہمارے شیخ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ اس دار فانی سے دار بقا کو کوچ کر گئے۔ کتنا سخت تھا وہ دن !! اللہ اکبر !!! رفع الله درجته في الجنة مع النبيين والصديقين و الشهداء و الصالحين و حسن اولئك رفيقا.
شیخ رحمہ اللہ کو آج ان کے عرب محبین نے زیادہ یاد کیا۔ میں نے پایا کہ کئی لوگوں نے اپنی میموریاں دو بارہ شائع کیں اور آپ رحمہ اللہ سے متعلق اچھی یادیں شیئر کیں۔
آج شیخ رحمہ اللہ سے متعلق دو تین باتیں شیئر کرنے کی طبیعت چاہ رہی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ان کی ان اچھی باتوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے۔
1۔ شیخ رحمہ اللہ اس بات کو بہت نا پسند کرتے تھے کہ آدمی صرف اپنے ملک، اپنی زبان اور اپنے ہم خیال لوگوں سے تعلقات استوار کرے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ جب حرم میں نماز ادا کریں، اپنے دائیں بائیں لوگوں سے سلام کلام کریں، باتیں کریں، زیادہ ان کی سنیں کچھ اپنی سنائیں، زبان بھی اچھی ہوگی، معلومات میں بھی اضافہ ہوگا اور اپنے خول میں بند رہنے کے نقصانات سے بھی بچ جائیں گے۔
2. کہا کرتے تھے کہ آدمی جتنی زبانیں جانتا ہے اس میں اتنے آدمی ہوتے ہیں، کئی زبانیں سیکھ سکتے ہوں تو بخیلی نہ کریں، زبانوں سے علوم و فنون کی راہیں بھی ہموار ہوتی ہیں۔ وہ خود بھی اردو، عربی ، انگلش اور اردو، ہندی کے علاوہ فرانسیسی اور جرمن زبانوں سے استفادہ کر سکتے تھے۔ بچپن بنگال میں گزرا تھا، آپ بنگلہ بول بھی لیتے تھے، یہاں کے بنگالی مزدوروں سے بنگلہ ہی میں باتیں کیا کرتے تھے۔
3. تعمیری کاموں میں ہاتھ بٹانا اور کسی کو بھی علمی مدد دینے میں کسی قسم کی بخیلی نہ کرنا ہمارے شیخ کا طرہ امتیاز تھا۔ ریسرچ اسکالرز یا اداروں کے ذمہ داران جب کبھی کسی موضوع پر کوئی منصوبہ بناتے تو اس کا پورا علمی خاکہ آپ لکھ کر پیش کر دیتے تھے۔ اس معاملے میں آپ واقعی شاہ خرچ واقع ہوئے تھے۔ جس کسی کے اندر جو کوئی خوبی دیکھتے تھے اسے اس سلسلے کی مثبت رہنمائی سے نواز دیتے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ کام ہونا چاہیے، یہ نہ ضروری ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ سارا کام ایک ہی فرد انجام دے۔
ثناء اللہ صادق تیمی