کچھ عرصے سے سوشل میڈیا خاص طور یو ٹیوب پر ماڈرن مفتیوں کا اتوار بازار سجا ہے جو جوکرز کی طرح دین پیش کر کے لوگوں کی انٹرٹینمنٹ کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ وبا بہت تیزی سے پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ انجینئر محمد علی مرزا اور غامدی صاحب کے فالوورز کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے اب ایسے ماڈرن مفتی کھمبیوں کی طرح یہاں اُگ رہے ہیں کہ جن میں کوئی گدھا حلال کر رہا ہے تو کوئی مفسر قرآن بن کر سائنس کی ہر الم غلم قرآن سے ثابت کرنے میں لگا ہے۔ کوئی مہدی ومسیح ہونے کا مدعی ہے کہ اسے سینکڑوں مرتبہ اللہ اور اس کے رسول خواب میں نظر آ رہے ہیں تو کوئی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کا ہی منکر ہے کہ وہ پیدا ہی نہ ہوئے تھے اور یہ سب کچھ تفسیر قرآن اور خدمت قرآن کے نام پر ہو رہا ہے۔ اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ ان سب کو تالیاں پیٹنے والے پڑھے لکھے فالوورز بھی مل جاتے ہیں۔
یقین مانیے، آپ ایسے ماڈرن دین فروشوں کو پڑھ سن لیں تو ابکائی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسوں سے آپ کو یہ علمی نکتے بھی سننے کو مل جائیں گے کہ بیوت، فعل امر کا صیغہ ہے۔ علم کا کوئی معیار ہوتا ہے لیکن جہالت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اب چونکہ سوشل میڈیا یوزر کی اکثریت دین سے ناواقف ہے لہذا انہیں کچھ بھی گھاس ڈال دیں تو گدھوں کی طرح چگالی کر لیتے ہیں، بھلے کوئی نبی ہونے کا دعوی کر دے یا خود خدا بن بیٹھے تو اس کو بھی لائک شیئر کرنے میں لگ جائیں گے۔ یا کوئی بھی چول مار دے بس شرط یہ ہے کہ اعتماد ہارورڈ کے پروفیسر والا ہو۔ ہمارے ایک کولیگ ہارورڈ میں اسٹوڈنٹ رہے تو انہوں نے بتلایا کہ ان کے پروفیسر صاحب کے پاس ایک لچک دار بال ہوتی تھی۔ اور کلاس کا اصول یہ تھا کہ جس اسٹوڈنٹ کی طرف بال انہوں نے پھینکنی ہے، اس نے اُس موضوع پر بلا سوچے سمجھے بولنا شروع کر دینا ہے کہ جس پر بحث ہو رہی ہے۔ اور بولنا اعتماد سے ہے کیونکہ باہر والے یہی سمجھتے ہیں کہ آپ ہاورورڈ کے گریجویٹ ہیں۔
یہی وہی صورت حال ہے کہ جس کے بارے صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں روایات ہیں کہ قیامت سے قبل ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جس میں علم، علماء کے ساتھ اٹھ جائے گا اور لوگ جاہلوں کو اپنا امام بنا لیں گے جو خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔ دیکھیں، آپ نے اگر اپنی ذاتی اصلاح، تربیت اور عمل کے لیے کتاب وسنت کا مطالعہ کرنا ہے تو ضرور کریں کہ اہل علم نے دینی مصادر کے تراجم اسی غرض سے کیے ہیں۔ لیکن اگر آپ نے دین میں کوئی رائے پیش کرنی ہے تو یہ ایک مقام اور مرتبہ ہے کہ جس کے لیے ایک اہلیت اور طریق کار ضروری ہے۔ اہلیت اور طریق کار کے بغیر دینی رائے کا اظہار ایک گناہ کبیرہ اور حرام کام ہے۔
اس کو یوں سمجھیں کہ مائیں اپنے بچوں کے لیے گھر میں ٹوٹکے کر لیتی ہیں۔ آپ بھی تھوڑے بہت بیمار ہوں تو گھر میں اپنا علاج معالجہ خود سے کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اپنے محلے کے چوک میں دکان سجا کر بیٹھ جائیں اور اپنے ٹوٹکوں سے لوگوں کا علاج شروع کر دیں تو اب قانون آپ کو پکڑ لے گا کہ یہ درست نہیں ہے کہ آپ کوالیفائیڈ نہیں ہیں۔ یہی معاملہ دین کا بھی ہے۔ جس طرح ہر فیلڈ میں بیسک کوالیفیکیشن ضروری ہے، اسی طرح دین میں بھی ضروری ہے۔ یہاں بہت سے مسخرے عربی پڑھا تو لیتے ہیں لیکن انہیں خود پڑھنی نہیں آتی۔ ایسے میں ہمیں تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ دین میں اپنی رائے کا اظہار وہی شخص کرے کہ جس نے دین کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہو۔
اگر آپ کا دینی علم صرف چند ویڈیوز، کچھ پوسٹوں اور دو چار ترجمہ کی ہوئی کتابوں کے بعض اسکین شدہ پیجز کی کل کائنات پر مشتمل ہو، رات کو کہیں گارڈ کی نوکری کرتے ہوں اور صبح یو ٹیوب پر دینی رہنمائی کرنے آ جاتے ہوں تو خدا راہ اپنی اور دوسروں کی آخرت تباہ نہ کریں۔ میڈیکل سائنس کا سنجیدہ طالب علم اس کی فیلڈ کی ہر ریسرچ کو کم از کم سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر تو کسی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ عقیدہ، اصول تفسیر، اصول فقہ، اصول حدیث، صرف، نحو، منطق، بلاغت، کلام، علم اخلاق وغیرہ کی علمی تراث کو پڑھ اور سمجھ سکتا ہو تو ضرور دینی رائے کے اظہار کا شوق پورا کر لے لیکن یہ صلاحیت بیسیوں سالوں میں پیدا ہوتی ہے۔ اس سے پہلے تو بس ذہن کا بخار ہوتا ہے۔
اصول فقہ کی بڑی بڑی اصطلاحات زبان کی نوک پر ہوں گے لیکن دو لائنیں کسی عربی کتاب کی پڑھنی مشکل ہو جائیں گی۔ قرآن مجید پڑھنا اور اس کا ترجمہ بھی نہ آتا ہو گا اور حضرت یہ وعظ فرما رہے ہوں گے کہ عالم ہونے کے لیے کون سا مدرسے سے فارغ ہونا ضروری ہے۔ بھئی، مدرسے سے نہ فارغ ہو لیکن عالم وہ تو نہیں ہے جو علم سے بھی فارغ ہو۔ نہ قرآن کا ترجمہ کر سکے اور نہ حدیث کا اور علماء کے تراجم پر اعتماد کر کے اب ان کی تصحیح شروع کر دے تو یہ دین کے ساتھ کھیل اور تماشا ہے جو ماڈرن مفتیوں نے لگا رکھا ہے۔
مدرسے کا فارغ التحصیل کم از کم قرآن تو صحیح پڑھ لے گا، ان سے یہ بھی بعید ہے۔ اللہ ان ظالمو کو ہدایت دے کہ کیسے دین کے نام پر دین کا کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جسٹیفائی یوں کر رہے ہیں کہ دین پر کون سا صرف مولویوں کا حق ہے۔ ٹھیک ہے، اس دین میں پاپائیت نہیں ہے۔ اپنی رائے کا اظہار کرنا ہے تو دین کو پراپر طریقے سے پڑھو۔ اور اپنی زندگی اس کام کے لیے وقف کرو۔ ڈگریاں انجینئرنگ میں حاصل کرو، پروفیشن اور ملازمت اور کاروبار دنیا کا کرو اور تحقیق دین میں پیش کرو۔ کمال جگاڑ لگایا ہے۔
تحریر، ایچ ایم زبیر