سوشل میڈیا پر وقت دینے والے اہل علم، اضافی وقت نکال کر لوگوں کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں، مذہبی طبقوں میں ابھی تک کوئی ایسا سلسلہ نہیں ہے کہ جس طرح امامت، خطابت یا تدریس و تقریر وغیرہ پر خدمت کی جاتی ہے، اسی طرح سوشل میڈیا پر دعوت و تبلیغ، افتاء و ارشاد اور درس و تدریس کا فریضہ سر انجام دینے والوں کے ساتھ بھی تعاون کیا جائے…!
سوشل میڈیا پر اہل علم کے ساتھ جڑے ہوئے لوگ اگر احساس کریں، تو جن علمائے کرام اور اداروں سے وہ رہنمائی لیتے ہیں، ان کے ساتھ اگر مالی تعاون بھی کرنا شروع کر دیں، تو آہستہ آہستہ کافی سارے علمائے کرام اور طلبہ العلم ایسے ہوں گے، جو اضافی اوقات کی بجائے باقاعدہ ذمہ داری سمجھ کر سوشل میڈیا پر دین کی حمایت اور نصرت و تائید کا کام کرنے کو تیار ہو جائیں گے… ان شاءاللہ
انٹرنیٹ پر یہ جدید وسائل و ذرائع جن لوگوں نے بنائے تھے، انہیں اس حقیقت کا اندازہ بروقت ہو گیا، لہذا انہوں نے کریئیٹرز یعنی تخلیق کاروں کی چیزوں کو مونیٹائز کرنا شروع کر دیا ہے، بلکہ سنجیدہ اور دینی کام کرنے والے بھی بہت سارے لوگ اسی مونیٹائزیشن کو ہی مسائل کا اصل حل سمجھتے ہیں، حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس سے مزید کئی قباحتیں اور مسائل جنم لیتے ہیں..!
سوشل میڈیا پر کسی بھی عالم دین کی موجودگی کی حقیقی قدر انہیں لوگوں کو ہے، جو بعض دفعہ سیکڑوں، ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود ان سے وہ مسئلہ پوچھ لیتے ہیں، جو اپنے قریبی عالم دین سے نہیں پوچھ پاتے…!
عام سیٹھ اور تاجر لوگ جو عموما مساجد و مدارس کو فنڈز دیتے ہیں، انہیں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر موجود دینی کام کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ نہیں ہے، ان کے سامنے جتنی مرضی بین بجا لیں، وہ تعاون کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے…!
ہاں یہ ضرور کہیں گے کہ دنیا چاند پر پہنچ گئی، لیکن ہماری مولوی صاحب بیچارے…!! اور مثالیں ڈاکٹر ذاکر نائیک وغیرہ جیسی شخصیات کی ہیں… لیکن خود اپنے ارد گرد علمائے کرام کو کبھی بھی اس لیے فنڈ یا تعاون نہیں دیں گے کہ وہ میڈیا، سوشل میڈیا وغیرہ پر اچھے طریقے سے دعوت و تبلیغ کا کام کر سکیں…!
مجھے دس پندرہ سال ہو گئے ہیں، سوشل میڈیا پر موجود ہوں، گویا اس دشت کی سیاہی میں ایک عرصہ گزار لیا ہے اور کسی نہ کسی حد تک اس کو نہ صرف سمجھا ہے، بلکہ اس کے مطابق اللہ کی توفیق سے کام کرنے کی بھي کوشش کر رہے ہیں، اور الحمد للہ بالکل محدود عرصے اور وسائل کے ساتھ ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ روزانہ سیکڑوں ہزاروں لوگ جس سے استفادہ کر رہے ہیں. لیکن اس کے باوجود اللہ تعالی نے جس طرز زندگی اور رہن سہن کو اپنانے کی توفیق دی ہے، نماز یا جمعہ پڑھا کر بیٹھوں تو کبھی کسی کو شبہ نہیں ہوا کہ ہم نے کبھی مسجد، مدرسے سے باہر قدم بھی رکھا ہو گا.. لہذا بعض حضرات آ کر ہمیں جدید دور اور اس کے تقاضے سمجھانا شروع کر دیتے ہیں… سب باتیں سن کر، جب اپنی بات اور صورت حال سمجھاتا ہوں، تو پھر چراغ گل ہونا شروع ہو جاتے ہیں…!!
یعنی وہ لوگ جو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ مولوی صرف مسجد تک ہی محدود ہے، جب کوئی مولوی صاحب انہیں کسی جدید کاز اور مقصد کے لیے تعاون کی بات کر دیں، تو وہی احباب زبانِ حال یا قال سے یہ پکار اٹھتے ہیں کہ ’مولوی کا ان چیزوں سے کیا لینا دینا؟‘
بات کسی اور طرف چلی جائے گی، میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں، کہ جن روپے پیسے والوں کے نزدیک موبائل اور کمپیوٹر ایک فتنہ ہے، جس کے ذریعے انسان فارغ اوقات میں صرف فضولیات دیکھتا ہے، وہ کیوں اس میں نیکی سمجھ کر تعاون کریں گے؟
لیکن جن کو اللہ تعالی نے توفیق دی ہے کہ وہ ان جدید وسائل و ذرائع کا مثبت استعمال کرتے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ اس کار خیر میں تعاون کرنے کی بھی کوشش کریں۔
ایک عالم دین سے روزانہ اگر آٹھ، دس لوگ بھی دس دس، پندرہ پندرہ منٹ لیں، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ایک ماہ میں کم از کم اڑھائی تین سو لوگوں کو ڈیل کر رہا ہے، جس کے لیے اسے یومیہ اوسطا دو گھنٹے صرف کرنے پڑ رہے ہیں..! اور یہ اس صورت میں ہے کہ فوری سوال اور فوری جواب، ورنہ بعض سوالات کے صرف جوابات نہیں، بلکہ ان کے لیے مکمل ایک ریسرچ ورک کی ضرورت ہوتی ہے، کتنے ایک ایک دو دو سطر کے سوال ہیں، جن کے جواب کے لیے عالم دین کو بعض دفعہ گھنٹوں بلکہ دنوں پر مشتمل ریسرچ اور تحقیق کرنا پڑتی ہے… اس سارے وقت کے عوض اس سے مستفید ہونے والے اسے کیا دے رہے ہیں؟ ہاں اگر ہر صاحب حیثیت ایک معمولی رقم ان کی خدمت میں ہدیہ دینا شروع کردے تو جس طرح دس دس منٹ مل کر ایک اچھا خاص وقت بن جاتا ہے، اسی طرح معمولی معمولی ہدیہ ایک مناسب رقم بن سکتی ہے، جس سے عالم دین کے لیے اس کے مشن میں کئی ایک آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں…!
کئی دفعہ اس حوالے سے لکھنے کا سوچا، لیکن تردد کا شکار رہا، البتہ اب فیصلہ کیا ہے کہ اس موضوع پر لکھنا ضروری ہے، کیونکہ اس میدان میں ہم پہلے ہی بہت پیچھے ہیں، اور یومیہ بنیادوں پر مسلسل پیچھے جا رہے ہیں، حالانکہ ولاتہنوا ولا تحزنوا وأنتم الاعلون إن کنتم مومنین میں جو وعدہ ربانی ہے، اس کے حصول کے لیے جدید وسائل و ذرائع کے میدان میں بھی جنگ جیتنا ضروری ہے..! اللہ تعالی سب کو توفیق عطا فرمائے۔
اور اس جنگ میں ہم کتنا پیچھے ہیں؟ آپ اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ شیطان کے چیلے تو اس سوشل میڈیا پر ناچ گانے پر بھی پیسے دینا شروع ہو گئے ہیں، اور گلی محلے کے وہ تمام ڈوم جنہیں کوئی پوچھتا نہیں تھا، وہ یوٹیوبر اور ٹک ٹاک سٹار بن چکے ہیں.. جبکہ ہم مذہبی لوگوں میں سے بہت ساروں کے نزدیک ابھی تک انٹرنیٹ، میڈیا، سوشل میڈیا محض ایک فتنہ ہے، جس پر کسی کوہ قاف کی شیطانی طاقتوں کا قبضہ ہے اور اس سے کبھی کوئی خیر برآمد نہیں ہو سکتی، لہذا جب تک امام مہدی اور حضرت عیسی علیہ السلام آ کر اس جادو اور طلسم کا قلع قمع نہیں کر دیتے، ہمیں خود کو اور اپنے بچوں کو اس سے دور رکھنا ہے..!
بھائی جان! ہم آخری نسل ہیں جو اس سے دور رہنے کی بات کرسکتے ہیں، آئندہ نسلوں میں ہوا، پانی، آکسیجن، بجلی، گیس کے ساتھ انٹرنیٹ اور موبائل وغیرہ کا اضافہ کرلیں، جس کے بغیر انسانی زندگی کا کوئی تصور نہیں ہو گا، ہو سکتا ہے تب تک نئے بچے کی ڈیلیوری نہ کی جائے، جب تک اس کے والدین اپنے موبائل سے لاگ ان کرکے ہسپتال میں داخلہ نہ لیں…!!
#خیال_خاطر