تحریکیت کے اہم ارکان

اُن کا دعوی چاہے قرآن وسنت کی بالادستی کا ہی کیوں نہ ہو لیکن درحقیقت بالادستی قولِ قائد کی ہوتی ہے۔ قائد نے کہہ دیا کہ کوئی چیز کفر ہے تو بھئی کفر ہے، قائد کا فیصلہ آیا کہ اب حالات بدل گئے ہیں اس کفر کو اسلام کا اہم ترین فریضہ سمجھو تو نہ صرف بلا چون وچراں سر تسلیم خم ہوگا بلکہ قرآن وسنت سے دلائل بھی تلاش کرنا ہوں گے۔
یہ تحریکیں امت کی صالح ترین جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تک پر تنقید برداشت کرنے کی ہمت تو رکھتی ہیں لیکن اپنے قائد کی عزت وشرف پر حرف کیا نقطہ بھی برداشت نہیں کرتیں۔ اس لیے کوئی کارکن معزز ترین ہستیوں پر زبان درازی کر جائے قابل قبول ہے لیکن بانی جماعت سے اختلاف بھی جماعتی دھارے سے نکال دے گا۔

۔۔۔۔۔
تحریک کسی بھی انسان میں داخل ہوجائے تو اسے ’’اثری‘‘ نہیں رہنے دیتی، کتاب وسنت کو حاکم سمجھنا اور آثارِ سلف صالحین کو مشعل راہ جاننا تحریکیوں کے بَس کی بات نہیں۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ ان کے لٹریچر میں آثار نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ بلکہ بعض کی حالت تو یہ ہوچکی ہوتی ہے کہ کسی تحریر میں قرآنی وحدیثی نص یا اَثر صحابی آ جائے تو اگلی پچھلی تحریر پڑھ لیں گے اور نص کو چھوڑ جائیں گے۔
کچھ نوجوان کہ جن کی ابتدائی پہچان ہی آثار اور اقوالِ علماء نقل کرنا تھا جب تحریکیت کو پیارے ہوئے تو سب چھوڑ کر ذاتی فلسفے جھاڑنے لگے۔

۔۔۔۔۔
تحریکیت لوگوں کے جذبات کو صرف اپنے ساتھ جوڑتی ہے اور اس میں کسی دوسرے کی شراکت پسند نہیں کرتی چاہے وہ قرآن و حدیث ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے آپ بہت سے کارکنان کو دیکھیں گے کہ ان پر پورا قرآن مجید پڑھ دیں، کچھ اثر نہیں ہوگا، نہ جذبات ابھریں گے اور نہ دل کی کیفیت تبدیل ہوگی۔ لیکن جیسے ہی اپنی تحریک کا کوئی ترانہ، نشید سنیں گے تو لمحہ بھر میں جذبات بدل جائیں گے احساسات بدل جائیں گے۔ واللہ المستعان۔

… حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ

اسے بھی پڑھیں: حائضہ کا قرآن کی تلاوت کرنا اور اسے چھونا