دنیا میں ہزارہا چیزیں ہیں جو اپنی ذات میں انجمن اور باعثِ لطف و مزہ ہیں لیکن اگر کوئی ذوقِ مطالعہ سے بہرہ ور اور درس و تدریس کا دلدادہ ہو تو شاید ہی کوئی بڑے سے بڑا عہدہ اور بلند ترین منصب اس کی نگاہ میں جچے. یعنی :
مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
جب طلبہ کی نگاہیں استاد محترم کے چہرے پر مرکوز ہوتی ہیں اور وہ ہمہ تن گوش ہوکر حرف حرف سے مشامِ جاں کو معطر اور دل و نگاہ کو جلا بخشتے ہوئے علم و عمل کی راہوں کے راہی بنتے ہیں تو ذرا سوچیے استاد محترم محنت کے جاں گسل لمحات کو کیف و مستی اور فرحت و انبساط کی وادیوں میں کس طرح ڈھالتے ہوں گے… ہائے :

جس وقت یہ مے تو نے بوتل میں بھری ہوگی
ساقی تيرا مستی سے کیا حال ہوا ہو گا

بلا مبالغہ تدریس کا شعبہ نہایت اعلی و ارفع اور مدرس ہونا شرف و عزت کا باعث ہے :
سب سے بلند ہے میرے ساقی تیرا مقام
لیتا نہیں بغیر وضو تیرا کوئی نام
انساں تو کیا فرشتے بھی کرتے ہیں احترام
ہیں ماہ و آفتاب تیرے میکدے کے جام
قائم مقام ہے تو رسالت مآب ﷺ کی
قندیلِ عرش ہے تیرا شیشہ شراب کا
اے عزیزانِ غفلت شعار! اگر اتنا بلند مقام ہے تو اس کے تقاضے بھی اسی قدر زیادہ ہیں… ہفتے، عشرے بعد مدارس میں تعلیمی سال کا آغاز ہوا چاہتا ہے. ایسے میں مدرسین حضرات کو چاہیے کہ درج ذیل ہدایات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مقدس فریضہ سرانجام دیں.
1 : وہ مضمون جس پر دسترس نہیں اسے ہرگز نہ لیں اور اگر ادارے کی طرف سے زبردستی اس کی تدریس کا کہا جائے تو شکایت ہونے کی صورت میں اس سے دستبردار ہو جائیں.
2 : کوئی بھی مضمون خواہ کتنی مرتبہ پڑھا چکے ہوں یا اس میں مہارت تامہ ہی کیوں نہ ہو بغیر مطالعہ نہ پڑھائیں.
3 : اوقاتِ کار کی مکمل پابندی کرتے ہوئے وقت پہ کلاس میں جائیں اور وقت پہ کلاس سے باہر نکل آئیں.
4 : تدریس کے لیے اپنی کتاب خریدیں اور معاون کتب سے حاشیے چڑھائیں تاکہ ایک بار کی محنت ہمیشہ کام آئے.
5 : طلبہ کے زیادہ قریب نہ ہوں تاکہ آپ کا وقار قائم رہے اور نہ ہی زیادہ دور ہوں کہ وہ ضروری بات کرنے سے بھی کترائیں.
6 : مستحق طلبہ پہ خصوصی نظر رکھیں اور خاموشی سے اپنی حیثیت کے مطابق ان کی مالی معاونت کریں.
7 : طلبہ سے کچھ کھانے پینے کی بجائے ان کو کھلائیں پلائیں…ہمارے اسلاف اسی طریقے پر گامزن تھے.
8 : جو مضمون آپ کے ذمے ہو اس کے متعلق کم از کم پچاس کتابوں کے نام یاد کریں.
9 : صاف ستھرا، خوشبو دار لباس اور پاؤں میں پالش کیے ہوئے چمکتے جوتے پہنیں.
10 : امیر، غریب اور ذہین و نالائق طلبہ میں کسی قسم کا فرق روا نہ رکھیں. نیز جو قانون شکنی کا مرتکب ہو بغیر تفریق مروجہ سزا دیں.
11- مضمون سے متعلقہ مصادر و مراجع اور طلبہ کو فراہمی کتب کے لئے اپنی دنیا خود بسائیں ۔ کسی منتظم صاحب کے محتاج و منتظر نہ ہوں ۔ انہیں اور بہت سے ضروری کام ہوتے ہیں۔ ان کی انتظار میں میری آنکھوں کے تارے عزیز از جان مدرس گرامی قدر تلقی و تحمل کے بہت سے گوہر ہائے گراں مایہ سے خود بھی محروم ہو جاؤ گے اور پیارے پیارے طلبہ کو بھی تہی دامن رکھو ۔

 

( نثر نگار , حافظ عبد العزيز آزاد. اضافہ : عبدالرحمن يوسف مدنى)