قرآن کریم کو تین دن سے کم عرصے میں پڑھنے کے حوالے سے کئی لوگوں کو اعتراض کرتے ہوئے سنا ہے۔ ان اعتراضات اور اشکالات کی بنیاد دو نکتے ہیں:
1۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے کم پڑھنے سے منع فرمایا ہے، لہذا جو ایسا کرے گا، وہ سنت کا مخالف ہے اور صحابہ کرام اور عظیم شخصیات سنت کی مخالف نہیں ہوسکتیں.
2۔ تین دن سے کم پڑھنے کے جو واقعات منقول ہیں، ان میں وقت بہت محدود بتایا گیا ہے، مثلا ایک ہی رات میں قرآن پڑھنا، رمضان میں ساٹھ مرتبہ قرآن پڑھنا. وغیرہ۔ حالانکہ اتنے کم وقت میں تکمیلِ قرآن ممکن ہی نہیں! وغیرہ.
ہمارے نزدیک تین دن سے کم پڑھنے کے واقعات صحیح اسانید سے ثابت ہیں. اور اس پر:
1۔ مخالفت سنت کا فتوی عالم کا شذوذ وتفرد اور غیر عالم کی لاعلمی ہے۔
امام نووی اور حافظ ابن حجر وغیرہ اہل علم نے یہ بات بیان فرمائی ہے کہ اس حدیث میں تین دن سے کم کی تحریم والا معنی موجود نہیں، جبکہ اکثر سلف صالحین قراءت قران میں دنوں کی بابندی کی بجائے قوت ونشاط کا خیال رکھتے تھے، اور کثیر تعداد ایسی تھی جو تین دن سے کم میں ختم کرلیا کرتے تھے. حافظ ابن حجر کی عبارت ملاحظہ کرلیں:
عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يختم القرآن في أقل من ثلاث وهذا اختيار أحمد وأبي عبيد وإسحاق بن راهويه وغيرهم وثبت عن كثير من السلف إنهم قرؤوا القرآن في دون ذلك قال النووي والاختيار أن ذلك يختلف بالأشخاص فمن كان من أهل الفهم وتدقيق الفكر استحب له أن يقتصر على القدر الذي لا يختل به المقصود من التدبر واستخراج المعاني وكذا من كان له شغل بالعلم أو غيره من مهمات الدين ومصالح المسلمين العامة يستحب له أن يقتصر منه على القدر الذي لا يخل بما هو فيه ومن لم يكن كذلك فالأولى له الاستكثار ما أمكنه من غير خروج إلى الملل ولا يقرؤه هذرمة والله أعلم……ولأبي داود والترمذي والنسائي من طريق وهب بن منبه عن عبد الله بن عمرو أنه سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم في كم يقرأ القرآن قال في أربعين يوما ثم قال في شهر ثم قال في عشرين ثم قال في خمس عشرة ثم قال في عشر ثم قال في سبع ثم لم ينزل عن سبع وهذا إن كان محفوظا احتمل في الجمع بينه وبين رواية أبي فروة تعدد القصة فلا مانع أن يتعدد قول النبي صلى الله عليه وسلم لعبد الله بن عمرو ذلك تأكيدا ويؤيده الاختلاف الواقع في السياق وكأن النهي عن الزيادة ليس على التحريم كما أن الأمر في جميع ذلك ليس للوجوب وعرف ذلك من قرائن الحال التي أرشد إليها السياق وهو النظر إلى عجزه عن سوى ذلك في الحال أو في المآل وأغرب بعض الظاهرية فقال يحرم أن يقرأ القرآن في أقل من ثلاث وقال النووي أكثر العلماء على أنه لا تقدير في ذلك وإنما هو بحسب النشاط والقوة فعلى هذا يختلف باختلاف الأحوال والأشخاص والله أعلم
(فتح الباري لابن حجر (9/ 97)
یہاں صراحت کے ساتھ سلف صالحین کا موقف بیان کرنے کے بعد تین دن سے کم کی تحریم والے قول کو کسی ظاہری عالم کا عجیب و غریب موقف قرار دیا گیا ہے۔
حافظ ابن رجب فرماتے ہیں:
إنما ورد النهي عن قراءة القرآن في أقل من ثلاث على المداومة على ذلك فأما في الأوقات المفضلة كشهر رمضان خصوصا الليالي التي يطلب فيها ليلة القدر أو في الأماكن المفضلة كمكة لمن دخلها من غير أهلها فيستحب الإكثار فيها من تلاوة القرآن اغتناما للزمان والمكان وهو قول أحمد وإسحاق وغيرهما من الأئمة وعليه يدل عمل غيرهم كما سبق ذكره.
(لطائف المعارف (ص: 171)
2۔ رہی یہ بات کہ اتنے وقت میں پڑھا نہیں جاسکتا، تو یہ ان بزرگوں اور ان کے حالات کو اپنے زمانے اور اپنی شخصیات پر قیاس کرنے کی وجہ سے ہے، جو کہ شاید قیاس مع الفارق کے قبیل سے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج بھی جو قرآن کریم کو جتنا زیادہ پڑھتا ہے، اس کے پڑھنے میں اتنی ہی روانی آجاتی ہے۔ اور پھر اگر میرے وقت میں برکت نہیں رہی، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سلف بھی اس ’برکت‘ سے خالی تھے۔

ایک رکعت یا دو رکعتوں یا ایک رکعات میں تکمیل قرآن کے سلف سے بعض آثار:

عن عبد الرحمن بن عثمان، قال: «قمت خلف المقام أصلي، وأنا أريد أن لا يغلبني عليه أحد تلك الليلة، فإذا رجل من خلفي يغمزني فلم ألتفت إليه، ثم غمزني فالتفت، فإذا هو عثمان بن عفان، فتنحيت، وتقدم وقرأ القرآن كله في ركعة ثم انصرف»(مصنف ابن أبي شيبة (2/ 243)(8589)
عن ابن سيرين، عن عثمان، «أنه قرأ القرآن في ركعة في ليلة»(مصنف ابن أبي شيبة (2/ 243)(8591)
عن ابن سيرين، «أن تميما الداري قرأ القرآن كله في ركعة»(مصنف ابن أبي شيبة (2/ 243)(8588)
عن سعيد بن جبير قال: «قرأت القرآن في الكعبة في ركعتين»(مصنف ابن أبي شيبة (2/ 243)(8594)
عن مجاهد، قال: «كان علي الأزدي يختم القرآن في رمضان في كل ليلة»(مصنف ابن أبي شيبة (2/ 243)(8595)​

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ تین دن سے کم ایک دن اور رات میں، ایک رکعت یا دو رکعتوں میں قرآن ختم کرنے والوں میں صحابہ کرام، تابعین اور خیر القرون کے لوگوں کے نام ہیں، اگر ان پر یہ دو اعتراض درست ہوتے، تو یہ واقعات ان دو اعتراضات کے بنا نقل نہ ہوتے، ضرور ان پر یہ اوبجیکشن لگا ہوا ہوتا۔
رہی بات فہم قرآن کی، تو وہ ہمارے جیسے تو حدیث میں بیان کردہ آخری حد چالیس دن بھی لگائیں، تو شاید ’لم یفقہ‘ والی لائن میں ہی آئیں گے۔ ویسے بھی قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے، لیکن بلا فہم صرف تلاوت قرآن بھی باعث ثواب ہے. تلاوت قرآن کی مثالی مدت تین سے لیکر چالیس دن ہے، لیکن لوگوں کی طبیعت اور ذوق کے مطابق اس میں کمی بیشی کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور اس سلسلے میں سلف سے مروی واقعات کی ضرب تقسیم کرکے انکار والا مزاج یہ تو انکار حدیث والا ذہن ہے۔ واللہ أعلم۔

حافظ خضر حیات