سوال

ایک دوکاندار کو فیکٹر ی سے کپڑا ایک ہزار کا ملے اور وہ آگے اپنے کسٹمر کو بارہ سو میں دے تو کیا یہ جائز ہے کہ نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

شریعتِ مطہرہ نے کسی بھی چیز پر نفع حاصل کرنے کی حد مقرر نہیں فرمائی، لہذا ہر شخص کو اپنی مملوکہ اشیاء کو من پسند نفع پر بیچنے کا اختیار ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی عروہ کو ایک دینار دیا کہ وہ اس کی ایک بکری خرید کر لائیں توانہوں نے ایک دینا رکی دو بکریاں خریدیں ، پھر ایک بکری کو ایک دینار میں بیچ کر ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دینار بھی واپس کر دیا اور بکری بھی پیش کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ان کی تجارت میں برکت کی دعا فرمائی‘۔ [صحیح البخاری:3642]
لہذا منافع کی کوئی حد مقرر نہیں اور من پسند ریٹ پر چیز فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ظلم اور دھوکہ دہی نہ ہو، بلکہ مروت، ہمدردی اور انسانوں کی خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے، کہ نفع کی مقدار کم، مناسب اور مارکیٹ کے مطابق رکھی جائے، اور بلاشبہ یہ باعثِ برکت و ثواب ہوگا۔ جیسا کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:

“رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا، إِذَا بَاعَ، وَإِذَا اشْتَرَى، وَإِذَا اقْتَضَى”.[صحیح البخاری:2076]

’اللہ ایسے شخص پر رحم کرے، جو بیچتے وقت، خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے‘۔
کاروبار اور تجارت اسی کو کہتے ہیں کہ قیمتِ خرید او رقیمتِ فروخت میں تفاوت ہو۔ کیونکہ قیمت خرید اور قیمت فروخت میں جب فرق رکھے گا تو اس کو کچھ منافع حاصل ہو گا۔
اگر فیکٹری سے اسے ایک چیز ہزار روپے میں ملتی ہے آگے وہ کچھ نفع رکھ کرفروخت کرے گا تو ہی اسے فائدہ ہوگا،ورنہ جتنے کی خریدی اتنے کی ہی بیچ دینے سے اسے کاروبار کرنے کا کیا فائدہ ؟
لہذا صورت مسؤلہ میں جو بتایا گیا ہے یہ جائز ہے،اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ