ایک روز امام المعتزلہ واصل بن عطاء نے اپنے ہم نشینوں میں خطاب کیا تو اس کا ساتھی عمرو بن عبید کہنے لگا : ”اسے سنو۔ حسن بصری، ابن سیرین، نخعی اور شعبی (رحمهم الله) کی باتیں تو محض حیض زدہ بوسیدہ ٹاکیاں ہوتی ہیں۔“
(الضعفاء للعقيلي : ٢٨٥/٣)

اسی طرح بدعتیوں کے کسی بڑے نے علمِ کلام کو فقہ پر فضیلت دینا چاہی تو کہنے لگا : ”شافعی اور ابو حنیفہ (رحمهما الله) کا علم تو عورت کے زیر جامہ سے باہر ہی نہیں نکلتا۔“
(الاعتصام للشاطبي : ٧٤٢/٢)

شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ (١٤٢٩ھ) نے ذکر کیا ہے کہ “علماءِ حیض و نفاس” ان مِن جملہ پھبتیوں میں سے ایک ہے جو اہلِ کلام کی طرف سے اہل السنۃ پر کَسی جاتی ہیں۔
(معجم المناهي اللفظية : ١٠٦)

درحقیقت اس طعنے کا آغاز دورِ نبوت میں ہی ہو گیا تھا جب ایک یہودی نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو کہا تھا کہ تمہارا نبی تمہیں قضائے حاجت تک کے احکام بتلاتا ہے!! دورِ حاضر میں یہ پھبتی خمینی نے متعارف کروائی ہے، جو اس کی کتاب الحكومة الإسلامية میں متعدد جگہ موجود ہے۔ وہیں سے اس کے منہجی متبعین تحریکی حضرات نے ہاتھوں ہاتھ لی اور علماءِ اہل السنۃ کیلیے دل کھول کر استعمال کی۔ ایک معروف مصری عالم دین بیان کرتے ہیں کہ میں نے خود قاھرہ میں ایک شخص کو درس دیتے ہوئے سنا جو کہہ رہا تھا : ”آخر کب تک غسل خانوں کی فقہ میں پھنسے رہو گے؟!“ صاحبِ ظلال نے فقہ الحرکۃ اور فقہ الأوراق کی “دقیق” تقسیم کر کے یہی کارنامہ انجام دیا ہے۔

حالانکہ مسائلِ طہارت بالعموم اور بابِ حیض و نفاس بالخصوص دین کے اہم ترین ابواب میں سے ہے۔ کتبِ احادیث کا آغاز کتاب الطهارة سے اسی لیے ہوتا ہے کہ جس بیوقوف کو یہ مسائل نہ پتہ ہوں وہ كتاب الجهاد اور كتاب الإمارة میں زور آزمائیاں نہ کرتا پھرے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦ھ) فرماتے ہیں کہ حیض کا باب فقہ کے مشکل ترین ابواب میں سے ہے۔
(المجموع شرح المهذب : ٣٤٤/٢)

علامہ ابن نجیم الحنفی رحمہ اللہ (٩٧٠ھ) فرماتے ہیں : ”حیض کے مسائل کا پتہ ہونا اہم ترین امور میں سے ہے کہ اس کے اوپر طہارت، نماز، تلاوت، روزہ، اعتکاف، حج، بلوغت، جماع، طلاق، عِدّت اور استبراءِ رحم جیسے ان گنت مسائل کا دار و مدار ہے … اور ان مسائل میں جہالت کا نقصان کسی دوسرے مسئلے میں جہالت سے زیادہ ہے۔“
(البحر الرائق : ١٩٩/١)

تو جسے گھر کی عورتوں کے دماء کے مسائل کا علم نہ ہو، وہ پوری امت کے مسائلِ دماء (خروج و تکفیر وغیرہ) میں رائے زنی کیسے کر سکتا ہے؟! والله المستعان!

(فیضان فیصل)