تاریخ کی کتابوں میں علمائے حق کے پہلو بہ پہلو
” علمائے سوء ” کی تُرْکْتازیوں اور باطل نوازیوں کا ذکرِ شر بھی پڑھنے کو ملتا ہے.
جی ہاں :
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

بنو امیہ کے عہدِ مسعود اور بنو عباسیہ کے دورِ خلافت میں ہارون الرشید رحمہ اللہ کے عہدِ زریں تک نہ صرف یہ لوگ دبے اور سہمے رہے بلکہ اگر کسی نے باطل نظریات کو فروغ دینے کی سعیِ نامراد کی بھی تو نہ صرف عوام الناس اور علمی حلقوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا بلکہ حکمرانوں نے ان فتنہ پردازوں کی بروقت گوشمالی کرتے ہوئے بعض کو حوالہء زنداں اور بعض کو سولی پر سرِعام لٹکایا جس سے بد باطن ہمیشہ درپردہ ہی رہے…مامون جیسے ” گھٹیا مطالعے ” کے شائق اور نظریاتی اعتبار سے ” معجونِ مرکّب ” بادشاہ کے تخت نشیں ہونے کی دیر تھی کہ ” علمائے سو ” کو اپنے پنجھے جھاڑنے کا موقع مل گیا جس کے نتیجے میں
” خلقِ قرآن ” کے مسئلے کو بنیاد بنا کر علمائے حق کو دار و رسن کی صعوبتوں کی دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا…قصہ مختصر ابنِ ابي داود معتزلی اور اس کے ہمنوا علماء سوء کی بدولت کبھی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی پیٹھ پر چلچلاتی دھوپ میں تازیانے برسائے گئے تو کبھی ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو اپنے مخالفین کی عنایتوں کی بدولت تاعمر تکالیف سے دوچار رہنا پڑا… بیسیوں علماء کرام رحمہم اللہ کے حالات و واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں جنہیں طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی موافقت اور ائمہ اربعہ رحمہم اللہ سے علمی اختلاف کے سبب اذیتوں سے دوچار کیا گیا…

زیبِ داستاں کے لیے اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ اوروں کے دستر خوان پر غیروں کی چھوڑی ہوئی ہڈیاں چچوڑنے والے فيضيوں نے شاہوں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ اپنی زنگ آلود صلاحیتیں اہلِ حق کے لیے استعمال کیں اور شہرت و ناموری کے لیے ہر اس شخص کی خوشامد اور کاسہ لیسی کی جس سے مالی یا سیاسی مفادات کا تحفظ نظر آیا…اہلِ باطل کے لیے یہ بخت مارے نرم و ملائم اور اپنوں کے لیے تند خو ہی رہے…ان کی جانب سے اہل حق کے لیے کبھی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نہیں آئے بلکہ ان کی نسیمِ صبح کی عطر بيزيوں سے ہمیشہ اہلِ باطل ہی شاد کام رہے…تنہائیوں میں خود فراموشیوں کے زخم چاٹنے والے يہ نو سرباز اپنے آپ کو خود ہی عہدوں کے قابل سمجھتے رہے اور خود ہی اپنے آپ کو عہدوں سے نوازتے رہے…اب چونکہ کتابوں کا دور لَد گیا اور اس کی جگہہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے تو اپنی فتنہ پرور طبیعت کے ہاتھوں مجبور یہ مدعیان علم ہر اس اوکھلی میں سر دیتے ہیں جس سے فتنے کی آگ تیز اور اہلِ حق کی پسپائی ہو…اپنا وزن باطل کے پلڑے میں ڈال کر داد و دہش سمیٹنے والے یہ اصحابِ قبہ و جبہ حبيب جالب کی اس بات سے بے خبر ہی رہے :

اصول بیچ کے مسند خریدنے والو
نگاہ اہلِ وفا میں بہت حقیر ہو تم

ان سے ہمیں کوئی غرض نہیں…یہ اپنی شطرنج کی بساط بچھا کر جیسی چالیں چاہیں چلتے رہیں…فکر ان اصحاب علم و فضل کی ہے جو ان کی لن ترانیوں اور مَن مانیوں پر چپ سادھ لیتے اور عزتِ سادات بچانے کے چکر میں ان کے نرغے میں آ جاتے ہیں…اہل علم سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ ان نالائق عناصر کا بےشک بائیکاٹ نہ کریں مگر ان کو وہ عزت تو نہ دیں جس کے یہ سرے سے حقدار ہی نہیں ہیں.

نثر نگار : حافظ عبد العزيز آزاد