علماء کرام روشنی کے ایسے بلند و بالا مینار ہوتے ہیں جن کے نفوس قدسیہ سے علم و عرفان کی ضیاء پاشیوں سے بھٹکے ہوئے قافلوں کو اپنی حقیقی منزل کی راہ نظر آتی ہے. اور علماء کرام آفتاب نبوت کی وہ روشن کرنیں ہیں جو اس بزم حیات کو منور رکھتی ہیں. گلستان نبوت کے وہ قیمتی پھول ہیں جن کی خوشبوئیں انسانی دل, روح اور دماغ کو علم و عمل, تقوی اور نیکی کی مہک پہنچاتی ہیں. جب علم و عمل کے یہ چراغ بجھ جائین گے تو اس دنیا پر جہالت کے سیاھ بادل چھا جائیں گے. اور پھر انسانی کارواں کی لگام جہلاء کے ہاتھوں میں ہوگی جو انسانوں کو جہالت کے تاریک کنووں میں پھینک دیں گے.
عبیداللہ بن جعفر کہا کرتے تھے:
علماء دنیا کےلیے روشنی کے مینار ہیں انہی سے وہ نور پھوٹتا ہے جس سے گمراہ ہدایت پاتے ہیں.
( فضیلت العلم ص 540 اردو از عبدالرزاق ملیح آبادی)

اولا تو یہ علمی شخصیات بہت ہی کم پیدا ہوتی ہیں اور جو ہیں وہ بھی رفتہ رفتہ اس بزم جہاں سے رخصت ہورہی ہیں. جن کا خلا پُر ہونا مشکل ہی نظر آتا ہے. جیسا کہ گذشتہ دنوں جماعت کی بہت سی علمی شخصیات یکے بعد دیگرے اس بزم جہاں سے رخصت ہوگئی ہیں اور کل الشیخ قاری نوید الحسن رحمہ اللہ وفات پا گئے ہیں، ان سب کا خلا پر ہونا ممکن نہیں ہے۔۔
کیونکہ حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ سلف کہا کرتے تھے:
اذا مات العالم وقع فی الاسلام ثلمۃ لایسدھا ماانقلب اللیل والنھار ( سنن دارمی )
عالم کی موت اسلام میں پڑنے والا ایسا شگاف ہے جسے کوئی بھی شی پُر نہیں کرسکتی۔

پھر حدیث مبارکہ میں جو ہے کہ علم اٹھا لیا جائے اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ علماء حق کو اللہ اپنے پاس بُلا لے گا اور وہی ہو رہا ہے جب علماء ہی نہیں رہیں گے جن کے ہاتھوں میں امت کی رھبری ہے تو یقینا پھر معاشرے میں جہلاء غالب ہو جائیں گے اور انہی کو امت کی کثیر تعداد اپنا امام سمجھنے لگے گی جس سے معاشرے میں جہالت عام ہو جائے گی ۔۔۔

ہم نے گزشتہ ہونے والی ان وفات سے بہت کچھ سیکھنا تھا لیکن ہمارے رویے ہیں کہ جیسے ہی وفات کا سنتے ہیں
تو ان علماء کے وفات کی وفات کی ایک پوسٹ لگا دیتے ہیں اور کئی ان شخصیات کی تصاویر سوشل میڈیا پر شئیر کرنے لگ جاتے ہیں،کئی ان کی وڈیوز بنا بنا کر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لگا کے اپنے اس اکاؤنٹ کے ویوز بڑھانے کے چکر میں ہوتے ہیں
اور اگر کوئی بہت میدان مارے گا تو وہ ان کے حق چند تعریفی کلمات لکھ کر خاطر جمعی محسوس کرنے لگے گا ۔۔
دیکھیں بنیادی طور پر ہم کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جو کام ہم کر رہے ہیں یہ کام عامی افراد بھی کر سکتے ہیں لیکن شریعت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے

لیکن ان کے چند بنیادی اصول وضوابط ہیں وہ یہ کہ وفات پانے والے علماء کرام کی تصاویر کو جا بجا شئیر نہ کیا جائے،
ان کی وڈیوز بنا بنا کر اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر نہ کیا جائے ۔۔
بس تعزیتی کلمات کہیں اور مسنون دعائیں ان کے حق میں مانگ لیں۔۔۔۔

اب رہے صاحباں علم تو ان کا کام یہ تھا کہ وفات پانے والے علم وعمل کے چراغوں کی تدریسی ،تصنیفی اور میدان عمل کی خدمات کو ایک منظم طریقے اور حالات حاضرہ کے فقہی طرز کے مطابق مرتب کریں ،مرتب کرنے کے بعد مدارس علمیہ کے بچوں کو نصابی سرگرمیوں کے علاوہ ان مرتب شدہ خدمات کو پڑھنے کی ترغیب دی جائے ۔۔۔اور ان ایسے انداز میں پڑھا اور پڑھایا جائے کہ ان فیلڈ کے ماہرین پیدا ہوں ۔۔۔۔

اس کے علاوہ وفات پانے والے علماء کرام کے جانشین پیدا کئے جائیں وہ اسطرح ہونگے جب ہم ان کی وفات کو سوشل میڈیا سے ہٹ کر دیکھیں اور سمجھیں گے لیکن افسوس یہ ہے کہ جب کبھی ایسی کسی وفات کا سنتا ہوں تو سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہوا دیکھتا ہوں جیسا کہ ہر اکاؤنٹ پر تصویر ،وڈیو وغیرہ وغیرہ یہی کچھ شئیر ہو رہا ہوتا ہے ۔۔
اس کو یوں کہہ لیں کہ اگر ہم نے آج بھی رجال کار پیدا نہ کئے تو آنے والے چند سالوں میں کتاب وسنت کی مستند معلومات فراہم کرنے والے اور اپنے دلوں میں امت اور وحدت امت کا درد رکھنے والے نہ ہونے کے برابر ہوں گے اور جہلاء کی کثرت ہو جائے گی۔۔

آخری بات یہ کہوں گا اکثر امور کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دینا کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ ان کا گہرا تعلق ہماری عملی زندگیوں سے بھی ہوتا ہے جس کو عموما ہم نظر انداز کر دیتے ہیں.

کامران الہیٰ ظہیر