بیوی اس سکون کا نام ہے جسے اللہ تعالى نے مصائب وہنگام سے بھری اس دنیا میں ایک شوہر کو عطا کیا ہے۔ بیوی اس عظیم نعمت کا نام ہے جو نسل آدم کی بقا کا ضامن ہے۔ بیوی وہ عطیہ الہی ہے جو مرد کی زندگی میں بہار بن کر آتی ہے، اور اس کی زندگی کو گل گلزار کر دیتی ہے۔ بیوی شوہر کے لئے صرف سکون ہی نہیں، بلکہ لباس بھی ہے جو اس کے اور فسق و فجور کے درمیان حائل ہوجاتی ہے، تاکہ اس کے لئے تزکیہ نفس کى راہ آسان ہو، اور عبودیت کی صفت مزید مستحکم ہوجائے۔ بیوی ایک ایسی نعمت ہے جو ایک انسان کی فطری ضرورت ہے، اور یہ ضرورت جس قدر اہم ہے خلاق عظیم نے – جو خود بھی جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے- اسی قدر اسے سنوارا بھی ہے۔
بیوی کی محبت بہت عظیم ہوتی ہے، دو محبت کرنے والوں کے درمیان نکاح سے زیادہ مضبوط رسی اور شادی سے زیادہ پائیدار کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ محبت جب اسراء کا سفر کرتی ہے تو ممتاز محل بن جاتی ہے، اور جب معراج سے سرفراز ہوتی ہے تو تاج محل بن کر ایک لاثانی یادگار بن جاتی ہے۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے شاہجہانی محبت کی اس عظیم یادگار کو دیکھ کر کہا تھا: دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں: ایک جنھوں نے تاج محل دیکھا ہے۔ دوسرے جنھوں نے تاج محل نہیں دیکھا ہے۔ دنیا میں بسنے والوں کی ایسی تقسیم نادر ضرور ہے، مگر بالکل برجستہ ، بر محل اور معنویت سے بھرپور ہے۔
بیوی کا مرحلہ ایک عورت کے لئے انتہائی اہم ہوتا ہے، یہ مرحلہ بڑی قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے، اپنے گھر میں لاڈ پیار میں پلی بڑھی یہ نازک کلی اچانک خدمت گزار عورت بن جاتی ہے۔ اور اپنے گھر کی شہزادی اچانک اسیرہو جاتی ہے۔
ایک عورت کے لئے یہ مرحلہ اس لئے بھی بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ اسی مرحلہ سے گزر کر وہ باکردار بیوی ماں کے بلند اور عظیم الشان مرتبت کا حقدار بنتی ہے۔
ایک کامیاب بیوی کی اہم علامت یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کے مقام ومرتبہ کو پہچانے، اس کے اولویات اور اس کی ترجیحات کو سمجھے، اپنے غیر اہم اور غیر ضروری مسائل کو اس کى زندگی کے مشن اور مقاصد کی راہ کا پتھر نہ بننے دے، بلکہ سراپا تعاون بن جائے۔
عورت کا اصل کردار اس کی دینداری سے مربوط ہے، اسی لئے نیک عورت دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے، اگر دینداری ٹھوس نہ ہو تو انسانی کردار کے سارے پیچ پرزے ڈھیلے رہتے ہیں، جو زندگی کے ہموار اور پرسکون شاہراہ پر تو خلل نہیں ڈالتے اور دینداری کا بھرم قائم رکھتے ہیں، مگر زندگی کے طویل سفر میں جوں ہی راستے سخت اور نا ہموار آتے ہیں یہ ڈھیلے پیچ وپرزے کھل کھل کر گرنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ کردار کی پوری مشینرى کھل کر بکھر جاتی ہے، اور ایک تہ دار سے تہ دار انسان بھی اپنے اصل کردار میں بے لباس ہو کر سامنے آجاتا ہے۔
ایک اچھى بیوی شوہر کی زندگی کو خوشنما چمن بنا کر رکھتی ہے، اور اس چمن میں ہر ڈال اور ہر شاخ پر چہچہاتی اور اسے اپنے نغموں سے معطر کئے رہتى ہے۔ تاہم بیوی کا اصل کردار شوہر پر پڑنے والے دینی اثرات میں ظاہر ہوتا ہے، یہی وہ کلیدی شعبہ ہے جہاں پہنچ کر ایک بیوی کا کردار نہ صرف اہم ترین ہو جاتا ہے بلکہ اس کا مقام ومرتبہ ماں کی عظمت کے قدم چومنے لگتا ہے۔
ایک اچھى بیوی کا کردار صرف یہ نہیں ہے کہ وہ شوہر کی دنیا کو جنت بنائے، اس کے چمنہائے زندگی کو رنگارنگ اور خوشنما کردے، اس کی حیات مستعار کے ہر شعبے کو نغموں سے بھردے، بلکہ اس کا اصل کردار شوہر کی اس زندگی میں ظاہر ہوتا ہے جس کا تعلق اس کی آخرت اور اس کی ذریت کے اصلاح سے ہے۔ جس طرح شوہر بیوی کے لئے لباس ہے اسی طرح بیوی شوہر کے لئے بھی لباس ہے، بلا شبہ بیوی شوہر کی زندگی میں اس کے اور معاصی کے درمیان ایک ڈھال ہے، یہ ڈھال جس قدر ٹھوس اور مضبوط ہوگی شوہر اسی قدر زندگی کے معرکوں میں سرخرو ہوگا۔ بیوی کی اصل آزمائش گاہ یہی ہے، اور اس کے میدان کارزار کا اصل معرکہ یہیں انجام پاتا ہے، بلکہ زندگی کے رزم وبزم کا یہی محور ومناط ہے۔
زندگی کی مختلف اور ان گنت راہوں میں ایک کربناک موڑ وہ ہے جہاں پہنچ کر دو چاہنے والے ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے ہیں۔ زوجین پیار کے منار، چاہت کا رمز اور عشق ومحبت کا استعارہ ہیں ۔ جہاں زوجین کے راستے الگ ہوجاتے ہیں شاید وہ موڑ کرب و اذیت کا آخری موڑ ہوتا ہے۔ جہاں کوئی وفا شعاربیوی کسی با وفا شوہرسے بچھڑ جاتی ہے وہ جگہ ہم وغم کی علامت اور حزن والم کا استعارہ بن جاتى ہے۔
مرد وہ عقل عیار ہے جو سو بھیس بدل لیتا ہے، اور جینے کے سو بہانے ڈھونڈ لیتا ہے، اس کائنات کے ہنگامے میں اس کی مشغولیات کے لئے کئی اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔ مگر بیوی بیچاری وہ سراپا عشق ومحبت ہے جو نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم، اس کی زندگی کے رنگ کتنے بھی بدل جائیں، دنیاوی مشغولیات اور زندگی کے ہنگامے اس کے سفینہ حیات کو کسی بھی طوفان سے دوچار کردیں، مگر شوہر کی محبت اس کے دل کے نہاں خانے میں امین کی امانت کی طرح صحیح سالم موجود رہتی اور اس کے وجود کو غم کی سولی پر چڑھائے رہتی ہے۔
بلا شوہر ایک عورت کی زندگی اجڑا دیار بن جاتی ہے، اولاد کتنی بھی وفا شعار اور فرمانبردار ہو ایک با وفا اور با کردار شوہر کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ کا بدیل نہیں ہو سکتی۔ شوہر سے جدائی کے بعد عورت کی زندگی میں سناٹا چھا جاتا ہے، مصائب ومحن اور آفات وآلام اس کی زندگی کے شیش محل میں ڈیر ہ ڈالنے لگتی ہیں، آزمائشیں اس کی ہم رکاب ہونے لگتی ہیں۔ اگر دنیا کی ساری نعمتیں بھی اسے حاصل ہوجائیں تب بھی اس کی زندگی وحشت کا نمونہ بن جاتی ہے، اور بظاہر ہنسنے مسکرانے والی عورت، اور اپنے عزم وحوصلے سے حالات کا پسینہ چھڑا دینے والی آہنی صنف نازک بھی اندر سے ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔
تقریبا ہر عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی بڑے آدمی کی بیوی بنے، جس کی سوسائٹی میں ایک حیثیت اور معاشرے میں عزت ہو، لوگوں میں اس کا ایک مقام ومرتبہ ہو، مختصرا اس کی دنیاوی زندگی کامیاب اور قابل رشک ہو۔
کسی بڑے آدمی کی بیوی بننا کوئی آسان چیز نہیں ہوتی، اس میں کوئی شک نہیں کہ عموما یہ چیز شہرت وبلندی، عزت وتکریم، اور بہت سارے دنیوی بلکہ اخروی فوائد کا بھی سبب بنتی ہے۔ مگر ایسے ہم سفر کے ساتھ ایک باوفا اور باکردار بیوی کو جن سنگلاخ راستوں سے گزرنا پڑتا ہے اس کا ادراک وہی عورت کر سکتى ہے جو اس راہ کی مسافر ہے۔ بڑے آدمی کی بیو ی بننا اگر باعث شرف وسعادت ہے تو یہ بہت ساری اضافی ذمہ داریوں کا سبب بھی ہے۔ یہ ایک با وفا و باکردار اور باشعور بیوی سے مزید قربانیوں کا تقاضہ، اور متعدد ومتنوع آزمائشوں سےدوچار ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔ کوئی بھی شرف اور کسی قسم کی بھی عزت وتکریم کبھی مفت میں نہیں ملتی، بلکہ اس کے حصول کی راہ ہمیشہ پر مشقت اور کٹھن ہوتی ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ بہت قربانی کا مطالبہ کرتى ہے:
لا یَسْلَمُ الشَّرَفُ الرَّفیعُ مِنَ الأذَى حتَّى یُرَاقَ مِنْ جَوانِبِہِ الدَّمُ
(شرف ومنزلت اور مقام ومرتبہ کی بلندی بلا تکلیف برداشت کئے حاصل نہیں ہوتی، عموما اس کے حصول کی راہ میں ایک انسان کو خاک وخون سے گزرنا پڑتا ہے)۔
در اصل بڑے آدمی کا ٹارگٹ بڑا ہوتا ہے، اور وہ اپنے اہداف ومقاصد کو پانے کے لئے ہمیشہ سرگرم اور پیہم کوشاں رہتا ہے۔ جدو جہد کا یہ سفر بہت پرخار ، کٹھن اور صبر آزما ہوتا ہے۔ یہاں اس کی بیوی کا اصل امتحان ہوتا ہے، کیونکہ شوہر کی زندگی جس قدر پرعزم اور مشغول ہوگی اسی قدر اس کا رد عمل اس کی فیملی پر ظاہر ہوگا، اور جس قدر اس کی زندگی گھر کے باہر ہنگاموں کی نذر اور تھکاوٹ سے دوچار ہوگی اسی قدر اس کا براہ راست اثر اس کے گھر کے اندر اس کی فیملی اور خصوصا بیوی پر پڑیگا۔
ایک مرد کی زندگی گھر کے باہر جنتے طوفانوں سے دوچار ہوگی، اور زندگی کی موج بلا جس قدر اس کو آزمائے گی، اس کا گھر اسی قدر اس سے متاثر ہوگا، اور ہر طوفان اور ہر تھپیڑے کی بازگشت سیدھے اس کے گھر کے درو دیوار سے ٹکرائے گی، اور ہر بار اس کا گھر اس صدائے باز گشت سے گونج اٹھے گا۔
یہیں ایک بیوی کی اصلی آزمائش شروع ہوتی ہے، اور یہ چیز ایک باکردار اور باعمل عورت کے لئے اصل امتحان ثابت ہوتى ہے۔ پھر بظاہر کمزور نظر آنے والی وہ باہمت اور باعمل عورت صرف ایک بیوی نہیں رہ جاتی، بلکہ اپنے بچوں کے لئے ماں اور باپ دونوں کا کردار بیک وقت بہت خوبصورتی سے ادا کرتی ہے۔
ایسے وقت اور ایسی صورت میں اگر بیوی کا کردار اعلى نہ ہو، اس کا ظرف وسیع اور دست تعاون دراز نہ ہو، وہ اپنے شوہر کی پشت پر مضبوطی سے کھڑی نہ ہو، اور ہر گام اور ہر موڑ پر وہ ثابت قدمی کا مظاہر ہ نہ کرے، تو یا تو شوہر زندگی کے امتحان میں فیل ہوکر اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہوجائے گا، یا پھر دونوں کے راستے الگ الگ ہوجائیں گے، اور زندگی کے یہ مسافر کسی موڑ پر پہنچ کر تھک ہار کر ایک دوسرے سے بچھڑ جائیں گے، یا کسی ناہموار اور سنگلاخ راستے سے گزرتے ہوئے دونوں ایک دوسرے کو ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیں گے، یا پھر ایسا ہوگا کہ مرد باہر تو خوب معرکے سر کرے گا، مگر گھر کے اندر اس کی فیملی لائف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر رہ جائیگی۔ غرضیکہ ایک بڑے آدمی کی کامیابی کا راستہ اس کى وفاشعار بیوی کے تعاون سے طے ہوتا ہے، شاید اس لئے بھی یہ کہا گیا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔
یاد رکھیں گھر میں جس قدر خوشى کا ماحول ہوگا، آپ اسی قدر سعید ہوں گے، اور جس قدر گھر میں اختلاف اور ناچاقی کا ماحول ہوگا اسی قدر آپ مضطرب اور بے چین ہوں گے۔ اور اس بات پر اہل خرد کا تقریبا اجماع ہے کہ گھر میں خوشی کا ماحول بغیر بیوی کی خوشی کے پیدا نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں ایک اہم بات ذہن نشین کرنے کی یہ ہے کہ انسان کی سعادت کا تعلق دو اہم امور سے ہے، ایک اس کے اور اس کے رب کے درمیان تعلق سے، اور دوسرا اس کے اور بندوں کے درمیان تعلقات سے۔ جس سعادت کا تعلق بندوں سے ہے اس کے تقریبا پچہتّر فیصد (75%) حصے کا تعلق انسان کی اپنی ذات اور اس کے گھر سے ہے۔ اصل سعادت کی ابتداء یہیں سے ہوتی ہے، اس لئے اگر سعید رہنا چاہتے ہیں تو اپنے گھر سے اس کی شروعات کریں۔ گھر میں خوشى کا ماحول پیدا کریں، اور یہ ماحول بلا بیوی کے بھرپور تعاون کے ناممکن لگتا ہے۔ فافہم!!!
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا تعامل بیویوں کے ساتھ ایسا تھا کہ خاندان نبوت میں پیار محبت کے دریا بہتے تھے، امہات المؤمنین کے ساتھ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا بے مثال تعامل دیکھ کر حیرت سی ہوتی ہے کہ کس طرح ایک عظیم ترین انسان چھوٹے چھوٹے گھریلو معاملات میں بھی عورتوں کی نفسیات کا خیال رکھتا، اور ان کی رعایت کرتا تھا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم یومیہ ان کی خبر گیری کرتے، انھیں جمع کرتے، اور حساس معاملات میں ان سے مشورہ بھی کرتے،ان کے احسانات کو قبول وتسلیم کرتے، اور انھیں یاد رکھتے، ان کی غلطیوں سے چشم پوشی کرتے، اور ان کی ہر طرح خاطر داری کرتے۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں، آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی خاطر انھوں نے بڑی قربانیاں دیں، نفس سے لیکر مال تک سب کچھ قربان کردیا، اور آزمائش سے پر زندگی گزارتے ہوئے قبل اس کے کہ اسلام کا بول بالا ہوتا، اور آپ کو وہ شان وشوکت حاصل ہوتی وفات پاگئیں۔ان کی وفات پر غم کی شدت اس قدر تھی کہ جس سال ان کی وفات ہوئی وہ سال “عام الحزن” قرار پایا۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کا کردار ایک بہت بڑے محسن اور غمگسار کی حیثیت سے رہا۔ نبوت کے ابتدائی دنوں میں آپ جس قدر آزمائشوں کے شکار رہے ان میں وہ آپ کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں، ہر تکلیف کو برداشت کیا، مگر ایمان میں جنبش نہیں آئی، وہ پہلی مومنہ تھیں، اور اس اولیت کو انھوں نے اپنے اعلى کردار سے بھرپور شرف بخشا۔ یہی وجہ ہے کہ ان سے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی محبت میں احسان کا احساس اور غمگساری کا شعور غالب ہے، نیز پیار محبت اور صدق ووفا کی اس کہانی میں امتنان کا پہلو حاوی اور ظاہر وباہر ہے۔
مکی زندگی کا وہ زمانہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایسا پر آشوب ، آزمائشوں سے بھرا ، اور ہم وغم سے بوجھل زمانہ تھا کہ اس میں دب کر دونوں کی مبارک اور مہم جو زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے، صدق وصفا اور پیار محبت سے لبریز کتنے حسین قصوں نے دم توڑ دیا ہوگا۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس محبت کا جواب بھی بھرپور محبت، اور اس وفا کا جواب وفا سے دیا، ان کے احسانات کو یاد رکھا، اور ان کی حسین یادوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا۔ جب بھی ان کو یاد کرتے ان کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے، جب بھی گھر میں بکری ذبح کرتے ان کی سہیلیوں کو گوشت بھیج کر ان کی محبت کو تازگی بخشتے، اور ان کے احسانات کو خراج تحسین پیش کرتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہی وہ اس بلند مقام پر پہنچیں کہ درجہ کمال تک پہنچ گئیں، جبریل علیہ السلام کے سلام کی حقدار ٹھہریں، اور جنت میں شاندار اور پرسکون گھر کی بشارت پائی۔
تاہم یہ ان کی قربانیاں تھیں، اور یہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی تکریم اور وفاداری تھی کہ ان کی یادوں سے آپ عمر بھر نہیں نکل سکے، اور انھیں اس قدر یاد کرتے اور ان کے احسانات کا تذکرہ فرماتے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تک کو غیرت آنے لگتی۔
خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حسین اور حسرت بھری یادوں نے کبھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑا، جب بھی ان کی یاد آتی تو ہر نقش ما سوا کو مٹاتی چلی جاتی۔
غزوہ بدر کے بعد ان کی چہیتی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر ابو العاص بن الربیع کو چھڑانے کے لئے وہ ہار بھیجا جو کبھی ماں خدیجہ کے گلے کی زینت اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی نظروں کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے وہ ہار زینب کو ان کی شادی کے وقت ہدیہ کردیا تھا۔ آج ایک بار پھر یہ ہار پرانی یادوں کو اپنے دامن میں سمیٹے سرور کونین کی آنکھوں کے سامنے آکھڑا ہوا تھا، دیکھ کر آپ صلى اللہ علیہ وسلم پھر ایک بار پرانی یادوں میں کھو گئے، اس وفا شعار بیوی کی موسلادھار یادیں اس طرح نازل ہوئیں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے وجود کو تر بتر کرتی چلی گئیں، صبر کا بندھن ٹوٹ گیا، اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ وہ وفا شعار بیوی بھی کیسی بیوی تھی کہ زندگی بھر تن من دھن سے آپ صلى اللہ کا ساتھ دیتی رہی، اور آج جب وہ نہیں تھی تو اس کا قیمتی ہار ان کی چہیتی بیٹی کے شوہر کو آزاد کرانے آیا تھا۔
خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ کی محبت واحترام کا عالم یہ تھا کہ آپ ان کی کوئی بات نہیں کاٹتے تھے، ان کى کوئی خواہش ہوتی تو اسے خوشی سے پوری کرتے، بعض روایتوں کے مطابق خدیجہ رضی اللہ عنہا ہی کی خواہش پر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے زینب رضی اللہ عنہا کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابو العاص بن الربیع (جو خدیجہ کی بہن ہالہ بنت خویلدکے بیٹے تھے) سے کی تھی۔
خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آپ کو اس قدر لگاؤ تھا، اور ان کی یادیں اس طرح آپ کے دل ودماغ میں بسیرا کئے ہوئے تھیں کہ ان کی وفات کے بعد جب ان کی بہن ہالہ بنت خویلد آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے آئیں تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سن کر چونک اٹھے، کیونکہ ان کی آواز ان کی بہن خدیجہ سے بہت مشابہ تھی، جب آپ نے وہ آواز سنی تو چونک اٹھے، اور بے ساختہ کہا: “اللہم ہذہ ہالہ” (یا اللہ! یہ تو ہالہ ہیں)۔
رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا ذکر ہو اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ نہ آئے تو بات مکمل نہیں ہو سکتی، آپ کے دم سے بیت نبوت میں محبت کے دریا بہتے تھے، آپ صلى اللہ علیہ و سلم نہ صرف ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے بلکہ کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے تھے، چنانچہ جب آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں کون آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے تو بلا تردد آپ نے کہا: عائشہ۔ سائل نے گمان کیا کی شاید عورتوں میں عائشہ ہوں گی، پوچھا مردوں میں سب سے محبوب کون ہے؟ کہا اس کے والد! چاہتے تو کہہ سکتے تھے کہ ابو بکر! بھلا ابو بکر کو کون نہیں جانتا تھا، مگر سوال محبت کے تعلق تھا، لہذا محبت کی دونوں نسبت عائشہ کی ذات سے جوڑ دیا۔ گویا آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب محبوب عائشہ تھیں جو آپ کے محبوب ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ شرف کی یہ انتہاء ہے کہ بیٹی اور باپ دونوں سرور کونین سید الاولین والآخرین صلى اللہ علیہ وسلم کے سب سے چہیتے ہیں۔
آپ کی چہیتی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جب عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی شکایت آپ سے کی تو آپ نے ان کو یہ کہہ کر سمجھایا کہ میری پیاری بیٹی کیا تم اس عورت سے محبت نہیں کروگی جس سے تمہارا باپ محبت کرتا ہے؟
کسی مناسبت سے مسجد نبوی میں جب کچھ حبشی کھیل دکھانے لگے تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم ان کا او ٹ کرکے کھڑے ہوگئے، وہ کھیل دیکھتی رہیں، اور جب تک آسودہ ہو کر خود نہیں چلی گئیں آپ صلى اللہ علیہ وسلم ویسے ہی کھڑے رہے۔
یہ بے مثال محبت ہی تھی کہ جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو یہ خواہش ظاہر کی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر منتقل ہوجائیں، اور جب آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی موت ہوئی تو سر مبارک ان کی گود میں تھا۔
ام المؤمنین صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر کی سب سے چہیتی اور خاندان کی لاڈلی تھیں، آپ صلى اللہ علیہ وسلم سےان کی شادی بہت عجیب حالات میں ہوئی تھی، ان کے باپ شوہر اور دیگر کئی رشتہ داروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھر پور محبت دی، اور ان کے ساتھ ایسا معاملہ فرمایا کہ ان کا سارا غم جاتا رہا۔
عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی چہیتی بیوی نے ایک دن ان کی دل آزاری کردی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم بہت ناراض ہوئے، اور خلاف توقع بہت سخت رد عمل دیا۔
ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا جیسی نیک اور صالح خاتون سے ایک بار ان کے حق میں غلطی ہوگئى، اور انھوں نے ان کے نرم ونازک دل کو کافی ٹھیس پہنچا دی، آپ صلى اللہ علیہ وسلّم کو پتہ چلا تو سخت ناراض ہوئے، اور کئی دنوں تک ان کے یہاں نہیں گئے۔
ایک دفعہ آپ اونٹنی پر چڑھنے لگیں تو پریشانی ہوئی، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنا گھٹنہ موڑ کر پاؤں سامنے کردیا، اوروہ سرور کونین سید الاولین والآخرین کے ران مبارک پر اپنا پاؤں رکھ کر اونٹنی پر سوار ہوگئیں۔
چنانچہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی، ازواج مطہرات سے آپ کا حسن سلوک، اور ایک باکردار بیوی کی وفاشعاری اور اس کی عظیم قربانیوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو بھرپور محبت دی جائے، اس کی کما حقہ قدر کی جائے، اس کے جائز مطالبات بقدر استطاعت پورے کئے جائیں، اس کی تکریم کی جائے، اور اسے وقتا فوقتا تحفے تحائف سے نوازا جائے۔ اسی طرح اسے گھر کا اہم ترین جزء سمجھا جائے، اسے گھریلو معاملات میں پورى طرح شریک رکھا جائے، اس سے مشورے لئے جائیں، اور اس کو گھر میں دوسرے درجہ کا مکین ہرگز نہ سمجھا جائے۔ اس کی بے پناہ خدمات کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کیا جائے، اور اس سے تعامل کرتے وقت اس کى اصل فطرت کی رعایت کی جائے۔

وسیم المحمدی