کہنے لگا: آج سے میں قرآن پر عمل کروں گا۔

عرض کی: بہت اچھی بات ہے، اللہ توفیق سے نوازے!

کہا: چنانچہ قرآن پر عمل کرتے ہوئے میں آج سے نماز پڑھنی چھوڑ رہا ہوں، کیونکہ نماز پڑھنا قرآن کے خلاف عمل ہے۔

پوچھا: بھائی ،یہ قرآن پر کیسا عمل ڈھونڈ لیا آپ نے جو آج تک امت کی سمجھ میں نہیں آ سکا؟

کہا: یہ امت کا مسئلہ ہے، مگر میں چونکہ علمی کتابی بلکہ قرآنی مسلمان ہوں، اس لیے میں تو نماز نہیں پڑھوں گا۔

پوچھا ، دلیل کیا ہے، اس نماز نہ پڑھنے کی؟

کہنے لگا ، سورہ نسا آیت نمبر 43

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ

مومنو! نماز کے قریب بھی نہ جاؤ۔

یہ ایک مکالمہ ہے، جسے سننے والا وہ دنیاوی علم پڑھا ہوا شخص، جو عربی اور دین کا مزاج نہیں سمجھتا، ظاہر ہے متاثر ہوگا۔ چلیے یہ تو نماز کی بات ہے، بالفرض اگر یہ کسی تاریخی واقعے کی بات ہو، اور قرآن کی بجائے آدھی حدیث یا پس منظر و وضاحت کے بغیر قرآن و حدیث کے چند الفاظ بتا کے مسئلہ بیان کیا گیا ہو، اور کرنے والا بھی کوئی لسان آدمی ہو تو سننے والا ساری زندگی اطمینان سے کسی غلطی پر مطمئن اور گامزن رہ سکتا ہے کہ اسے دیگر علما نے تو گمراہ کیا تھا، اب اسے کسی مسیحا نے دلیل سے بات بتا دی ہے، اور اسے اس کی بات سمجھ بھی آ گئی ہے۔

یہ فہم کا وہی اسلوب اور پہلو ہے جس کے متعلق قرآن نے خود بتایا:

یضل بہ کثیرا و یہد بہ کثیرا،

یعنی قرآن سے بہت سے لوگ ہدایت بھی پائیں گے اور بہت سے گمراہ بھی ہوں گے۔ اگر قرآن سے یہ ہوسکتا ہے تو ظاہر ہے حدیث سے تو بالاولی یہ ممکن ہے۔

تو یہ ایک انکشاف ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی ایپ سے انگلی رکھ کے بتایا گیا حوالہ دیکھ کے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ حق پالیا۔

دین ظاہر ہے سرکار نے پاکستانی عوام کو پڑھانے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی، اب یہ نجی معاملہ ہے، نجی معاملہ ہے تو جس کسی کا جی چاہے گا ،وہ پڑھے گا، جو پڑھے گا وہ جیسا کچھ میسر ہوگا، وہی پڑھے گا۔ اس سے ایک تو معیاری منہج تک پہنچنا ہر شخص کے بس سے باہر ہوگیا۔ دوسرے وہ ٹیڑھی کھیر والے لطیفے کی طرح جس کے جو ہاتھ میں آیا ، اس نے اسی کو دین سمجھ کے ،جو ویسا نظر نہ آیا اسے بے دین سمجھنا شروع کر دیا۔ پچھلے دنوں ہمیں جو ضرب عضب وغیرہ کرنا پڑے، وہ اسی فہم دین کا نتیجہ تھے کہ ایسے کم فہم اور کج فہم نوجوانوں کو جو جیسے چاہے دین کے نام پر ہانک لے۔

اس کا جو دوسرا بڑا نقصان ہوا، وہ یہ کہ بظاہر پڑھے لکھے لوگوں کے پاس بھی پراپر اسلوب میں اصول و قواعد کے مطابق سمجھا ہوا دین نہیں آیا مگر ایک تو خود انھیں یہ سمجھنے اور کہنے میں دقت ہوتی ہے کہ وہ ٹھیک قواعد شریعت کے سانچے سے گزرا ہوا دین نہیں سمجھتے، دوسرے عوام کو دھوکا ہوتا ہے کہ اگر ایم اے اسلامیات اور پروفیسر ، ڈاکٹر وغیرہ دین نہیں سمجھتے تو اور کون سمجھے گا؟ اسی سے پھر ہمارے ہاں ریٹائرڈ لوگ اور انجینئر وغیرہ بھی دین سمجھانے چلے آئے، ان لوگوں نے اچھا کام بھی کیا تو ساتھ اصول سے ہٹے عدم فہم کی بنا پر دین کی غلط تعبیر بھی کی، دلیل کے نام پر دلیل کا مذاق بھی اڑایا، اور فقہ دین سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا دین بھی تراشا دراصل جو دین کی ضد تھا۔

دین نا صرف عربی سے آتا ہے اور نہ صرف حدیث کا اردو ترجمہ پڑھ لینے سے، عربی سے آتا تو صحابہ قرآن کا مطلب اور تفسیر نبی سے پوچھنے نہ جاتے اور نہ نبی بھیجنے کی ضرورت ہی پیش آتی کہ عربوں کیلئے عربی قرآن ہی کافی ہوتا،

رہے صرف ترجمے ، تو ترجمے میں تو اصل نہیں آتا، دین کا مزاج کیسے آئے گا؟ چنانچہ ایک بات آج قرآن ہی سے سمجھ لیجئے کہ جو شخص طریقہ امت کے خلاف آپ کو کوئی دین سکھاتا ہے، اس میں کوئی خیر نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ کوئی ایک اکیلا شخص اگر دعوی کرے کہ اسے وہ دین سمجھ میں آیا ہے جو پوری امت کو نہیں آیا تو ایک تو وہ حدیث کے مطابق جھوٹا ہے، کیونکہ ارشاد نبوی ہے:

“میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی۔”

دوسرے قرآن کا ارشاد ہے کہ جو شخص امت کے برعکس طریقہ دین لے کے آتا ہے وہ قابل رد اور قابل مذمت ہے:

وَمَنۡ يُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَـهُ الۡهُدٰى وَ يَـتَّبِعۡ غَيۡرَ سَبِيۡلِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصۡلِهٖ جَهَـنَّمَ‌ ؕ وَسَآءَتۡ مَصِيۡرًا

اور جو شخص ہدایت کے ظاہر ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور (تمام) مسلمانوں کے راستہ کے خلاف چلے تو ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے جس طرف وہ پھرا اور اس کو جہنم میں داخل کردیں گے اور وہ کیسا برا ٹھکانا ہے۔

یہاں غور کرنے کی بات یہ کہ سبیل المومنین یعنی مسلمانوں اور امت کا راستہ چھوڑنے پر بھی وعید سنائی گئی ہے۔

یہ چند سطریں ان نوجوانوں کیلئے لکھ دی ہیں، جو آدھی ادھوری دلیل پر خوشی سے بغلیں بجانے لگتے ہیں کہ جو دین ہمیں سمجھ میں آگیا، امت میں کسی کو نہ آیا تھا۔ تو بھائی یہ خوشی کا نہیں خوف اور خطرے کا مقام ہے۔

یوسف سراج