زکاۃ سے متعلق لجنۃ العلماء کے فتاوی سے ماخوذ 15 اہم مسائل

1. بعض لوگ نقدی اور سونا چاندی کی زکاۃ کی ادائیگی کے طور پر لوگوں کو راشن اور ضروریات زندگی کی چیزیں لے کر دیتے ہیں، جبکہ بہتر یہ ہے کہ آپ جس کو مستحق سمجھتے ہیں، اسے نقدی ادا کریں، اسے جس چیز کی ضرورت ہوگی، وہ خود خرید لے گا۔ (فتوی نمبر:161)
2. قرآن کریم میں زکاۃ کے بیان کردہ ’’مصارفِ ثمانیہ‘‘ میں قبرستان وغیرہ نہیں ہے، لہذا اس کام کے لیے زکاۃ خرچ نہیں کی جاسکتی۔ (فتوی نمبر:44)
3. کاروبار میں انویسٹ شدہ رقم اگر نصاب کو پہنچتی ہو ، اور اس پر سال بھی گزر گیا ہو، تو اس پر زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے۔(فتوی نمبر:314، 291)
4. جو پراپرٹی کاروباری ارادہ سے خریدی گئی ہو، جیسا کہ سوسائٹی/کالونی/ٹاؤن وغیرہ بنائے جاتے ہیں، ان پر انویسٹ شدہ رقم اور حاصل ہونے والا نفع، ہر دو پر زکاۃ واجب ہے۔ (فتوی نمبر:301، 291)
5. جو پلاٹ ذاتی استعمال اور گھر بنانے کے لیے خریدا جائے، اس پر زکاۃ نہیں ہوتی، جبکہ جو کاروبار اور انویسٹمنٹ کے طور پر ہو، اس کی ہر سال اڑھائی فیصد زکاۃ دینا ضروری ہے۔ (فتوی نمبر:294)
6. ادھار کی زکاۃ ادھار دینے والے نے ہی ادا کرنا ہوتی ہے، کیونکہ وہ رقم اس کی ملکیت ہے، الا یہ کہ وہ رقم ڈوب جائے، اور واپس ملنے کی امید نہ ہو، تو پھر اس پر زکاۃ نہیں ہوگی۔ (فتوی نمبر:292)
7. آلاتِ تجارت پر زکاۃ نہیں ہوتی، مثلا پلازہ کی دوکانوں کی مالیت پر زکاة نہیں ہے، لیکن دکانوں سے حاصل ہونے والے کرائے پر سال گزر جائے اور وہ نصاب تک پہنچ جائے تو اس پر زکاۃ واجب ہے۔ اسی طرح دیگر مشینری وغیرہ دیگر آلاتِ تجارت پر بھی زکاۃ نہیں ہوتی،ہاں اگر کوئی مشینری کی خرید و فروخت شروع کر دے، تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔ (فتوی نمبر:288)
8. دکان کی مالیت پر زکاۃ نہیں، کیونکہ دکان آلہ تجارت ہے، جس کی مالیت پر زکاۃ نہیں ہوتی، بلکہ اس سے حاصل ہونے والے نفع ، پیداوار یا کرایہ وغیرہ پر زکاۃ ہوتی ہے۔ (فتوی نمبر:287)
9. مرض کا علاج ایک بنیادی ضرورت ہے، جو شخص اس قدر تنگ دست ہو کہ اپنا علاج نہ کروا سکتا ہو، یا اس کے لیے مقروض ہوگیا ہو، تو اس کو زکوۃ کی مد میں رقم دینا جائز ہے۔ (فتوی نمبر:285)
10. بعض لوگ امام مسجد یا حفظ استاذ کو زکاۃ کے پیسے سے گفٹ اور ہدیہ دیتے ہیں، جو کہ درست نہیں، کیونکہ ایک تو ہر امام یا استاذ زکاۃ کا مستحق ہوتا نہیں، دوسرا اگر مستحق ہو بھی، تو زکوٰۃ ایک فریضہ ہے وہ رواداری کے طور پر نہیں دی جا سکتی۔ (فتوی نمبر:284)
11. دارا الامان، دار الایتام وغیرہ ادارے، جہاں مستحق افراد کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں، وہاں زکاۃ دی جاسکتی ہے۔ (فتوی نمبر:276)
12. ٹھیکے پر لی گئی زمین کی پیداوار اگر نصاب کو پہنچتی ہو، تو ا س پر بھی زکاۃ (دسواں یا بیسواں حصہ) واجب ہے۔ (فتوی نمبر:190)
13. اموالِ تجارت کی زکاۃ میں قیمتِ فروخت شرعاً معتبر ہوتی ہے، اگر بھاؤ تاؤکی وجہ سے قیمتِ فروخت مختلف ہوتی ہو، تو اس صورت میں دوکان دار جس قیمت پر عموماً فروخت کرتا ہے، اس قیمت کا اعتبار کرکے کُل سرمایہ کا حساب کیا جائے گا۔ (فتوی نمبر:184)
14. تاجر تجارت کے سامان کی قیمت کو ، اپنے پاس موجود نقدی کو،اور جو اس نے قرض لینا ہے،تینوں چیزوں کو ملا کر کل رقم کا اڑھائی فیصد بطورِ زکاۃ ادا کرے گا۔(فتوی نمبر:184)
15. مسجد اہل محلہ، اہل دیہہ یا کسی جگہ کے باسیوں کی ایک ضرورت ہے، اور سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جیب سے مسجد اور اس کی ضروریات کو پورا کریں۔ جس طرح وہ اپنی کسی اور ضرورت پر زکاۃ کی رقم خرچ نہیں کرسکتے، اسی طرح مسجد کی تعمیر یا مسجد کے متعلقین کی ضروریات پر زکاۃ استعمال نہیں کی جاسکتی۔ (فتوی نمبر:42)
نوٹ:یہ تمام فتاوی یونیکوڈ/ پی ڈی ایف کی صورت میں ہماری ویب سائٹ www.alulama.org پر موجود ہیں۔