شیطان کا ایک بہت بڑا دھوکہ یہ بھی ہے کہ فلاں اگر اپنی جاب درست طریقے سے کر رہا ہے تو اسکی شخصیت کے باقی پہلوؤں اور ذاتی زندگی کو جج کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔

یہ بھی دراصل سیکولر سوچ کا شاخسانہ ہے کہ انسان کی زندگی کو دین سے کاٹ کر مختلف شعبوں میں بانٹ دو اور ہر شعبے کو الگ الگ معیارات پر جانچو۔۔۔ اخلاقیات کو مذہب سے کاٹ کر لوگوں کے مجموعی مزاج پر چھوڑ دو (لبرل ازم اور ڈیموکریسی) اور پھر مجموعی مزاج کو میڈیا کے ذریعے مقتدر قوتوں کے مالی مفادات کے مطابق ڈھالو ( کیپٹل ازم)۔

اسے ٹھوس اور غیر متبدل اصولوں کی بجائے مجہول قسم کی بنیادوں پر کھڑا کر دو اور ارتقاء پذیر قرار دو۔ یعنی یہ کیا بات ہوئی کہ جو بات چودہ سو سال پہلے غلط تھی وہ آج کے جدید دور میں بھی غلط قرار دی جائے؟ اس دور میں پردہ تھا تو ضروری تو نہیں کہ آج بھی ہو۔ اس دور میں زنا غلط تھا تو آج تو عین ضرورت ہے۔ اس دور میں ہم جنسیت جرم تھی تو آج کل تو انسانیت ہے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
اور پھر یہ “ذاتی زندگی” والا ڈھکوسلہ بھی فیشن بن گیا ہے۔ جناب، ذاتی زندگی صرف وہ ہے جو آپ کے گھر کی چار دیواری تک محدود ہے۔ جب آپ پبلک میں آ جاتے ہیں اور پبلک کے ساتھ تعامل کرتے ہیں تو یہ تعامل اب ذاتی زندگی کی حدود سے نکل کر پبلک لائف میں داخل ہو چکا ہے اور پبلک کو پورا حق ہے کہ اس پر اپنی رائے دے اور اپنی پسند و ناپسند کا اظہار کرے۔
اسی بات کو ایک اور زاویے سے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ دین میں دو طرح کی تقسیم ہے:
عبادات اور معاملات
عبادات کا اصول یہ ہے کہ ہر امر ناجائز ہے، جب تک اسکے جائز ہونے کی دلیل نہ ہو۔ مثلاً نماز میں تین سجدے نہیں کر سکتے کیونکہ اسکی کوئی دلیل نہیں حالانکہ سجدہ بذات خود ایک عظیم عبادت ہے۔ فی الحال عبادات ہمارا موضوع نہیں۔
معاملات کا معاملہ یہ ہے کہ ہر امر جائز ہے جب تک اسکے ناجائز ہونے کی دلیل نہ ہو۔ اور یہی ہمارا اصل موضوع ہے۔ کیونکہ معاملات زیادہ تر وہ امور ہیں جو گھر سے باہر پبلک لائف سے متعلق ہیں۔
مثلاً ہر شخص سے دوستی جائز ہے، سوائے ان کے جن سے دوستی سے اسلام نے منع کیا ہے۔ ہر خوراک جائز ہے سوائے اس کھانے پینے کے جسے اسلام نے ناجائز قرار دیا ہے۔ ہر کسی سے شادی جائز ہے، سوائے ان کے جن سے اسلام نے منع کیا ہے۔ ہر قسم کا لباس پہن سکتے ہیں سوائے اس کے جس سے اسلام نے منع کیا ہے۔ جہاں جی چاہے آ جا سکتے ہیں سوائے ان جگہوں کے جن سے اسلام نے منع کیا ہے، و علی ھذا القیاس ۔۔۔۔
اور ایک مسلمان اگر معاملات میں اسلام کے تقاضوں کا خیال نہیں رکھتا تو دوسرے مسلمانوں کو اس پر تنقید کا حق ہی نہیں، بلکہ یہ انکا فرض ہے کہ نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔۔۔۔
تو جو اسلام دشمنوں سے دوستی کرے گا، ہم اس پر تنقید کریں گے، خواہ کتنے ہی غریبوں کا سہارا ہو۔
جو حرام لباس پہن کر گھر سے نکل کر پبلک میں آئے، یعنی مرد عورت سے یا عورت مرد سے مشابہت کرے، یا عورت چست اور نامکمل لباس پہنے، یا غیر مسلموں کے مذہبی لباس سے مشابہت ہو تو ہم تنقید کا پورا حق رکھتے ہیں، خواہ ہر ماہ سینکڑوں غریبوں کے لباس کا بندوست کرتا/کرتی ہو۔
جو پبلک میں حرام اشیاء کھائے پئیے گا، ہم بولیں گے، خواہ ہر ہفتے غریبوں کیلئے لنگر کا انتظام کرتا ہو۔
جو غیر اسلامی تہذیب کی سرعام حمایت کرے گا، اسے اختیار کرے گا تو ہم تو شور مچائیں گے خواہ غریبوں کیلئے مفت ہسپتال چلاتا ہو۔۔۔
اگر چوری کی دولت سے غریب کی مدد قبول نہیں کی جا سکتی تو غریب کی مدد کی وجہ سے چوری کی اخلاقیات بھی قبول نہیں کی جا سکتیں۔۔۔!!!

(ڈاکٹر رضوان اسد خان)