میں جب بہت چھوٹا تھا تو میرے ابا بیرون ملک میرے لیے دیگر کھلونوں کے علاوہ گھر میں ڈیکوریشن کے لیے رکھنے والے ربڑ کے بنے انگور کے دو عدد گچھے لائے۔ سبزی مائل موٹے گول دانوں والے گچھے سے تو اندازہ ہو گیا کہ اس کا ذائقہ ہمارے ہاں پائے جانے والے موٹے انگور جیسا ہو گا۔ لیکن دوسراگچھا گہرے سرخ اور جامنی رنگ کا امتزاج تھا ۔ ایسا انگور مقامی طور پر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سارے بچپن اور نوجوانی کے عرصہ میں وہ انگور کا گچھا گھر میں پڑا انگور کی ایسی قسم کی یاد دلاتا رہتا تھا جس کا ذائقہ میرے لیے اجنبی تھا اور میں اس کا صرف تصور ہی کر سکتا تھا۔ اب کیا کیا جائے؟ ایک حسرت باقی تھی۔
پھر جوانی میں بیرون ملک کا سفر کیا تو وہاں سبز کے ساتھ ساتھ ایک چھوڑ دو چھوڑ تین تین قسم کے سرخ اور سیاہی مائل انگور موجود تھے۔ ان کے ذائقے سے بھی آشنا ہو گیا۔ چلیں یہ تو کھا لیا۔۔۔ لیکن اب کیا کیا جائے؟ ہاں، ابھی تک بلیوبیری اور رس بھری تو چکھی نہیں۔۔۔ صرف تصویر ہی دیکھی ہے ۔۔۔ وقت گزرا تو وہ بھی چکھ کر دیکھ لی۔۔۔
لیکن۔۔۔ اب کیا کریں؟
یہ ایوکیڈو ہے۔۔۔ لوگ اس کو سوپر فوڈ کہتے ہیں۔۔۔ اچھا۔۔۔ یہ بھی چکھ کر دیکھ لیا۔۔۔
لیکن اب؟ فلاں فلاں پھل اور فلاں فلاں نعمت تو ابھی حاصل نہیں ہوئی۔۔۔۔

کچھ یہی حال سٹرابیری کا تھا، جس کو آج تقریباً ہر امیر و غریب پاکستان میں کھا چکا ہو گا۔
میرے بچپن اور لڑکپن میں سٹرابیری صرف تصاویر میں پائی جاتی تھی، اس کے ذائقے کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا تھا۔ لیکن پھر ماشاءللہ سے یہ اتنی زیادہ متعارف ہوئی کہ ریڑھیوں پر رُلی پھرتی تھی۔

بچپن میں پولکا اور یمی آئس کریم کے دو ہی برانڈز ہوتے تھے۔ اور ان کے اشتہار دیکھ کر حسرت باقی رہتی کہ کب عید آئےگی اور عیدی کے پیسوں سے آئس کریم خریدیں گے۔ ۔۔۔ جی آپ نے ٹھیک پڑھا۔۔ آج کل کی طرح روز رٹا ڈال کر اپنی ماں سے دو دو سو روپے لے کر چاکلیٹس ، سلانٹی ، آئس کریم وغیرہ ڈکارنے کے بعد بھی رونا دھونا ختم نہ ہونا؟ یہ ہمارے چشم تصور میں بھی نہ تھا۔ چنانچہ سال میں ایک دو بار عیدی کے پیسوں سے ایک دو بار آئس کریم لے کر عیاشی کی جاتی۔

وقت بدلا۔۔۔ بیرون ملک خود کمانا شروع کیا اور آئس کریم کی ایک آدھ لالی یا چھوٹا کپ نہیں، بلکہ لیٹروں میں خریدنے کی سکت آ گئی۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔؟ اب آئس کریم میں وہ ذائقہ اور وہ عیاشی محسوس نہ ہوتی تھی جو سال میں ایک دو بار کھا لینے پر محسوس ہوتی تھی۔۔۔ اس لیے۔۔۔۔ اب کیا کیا جائے؟
ہاں، وہ فلاں فلاں فرینچ ڈیزرٹ۔۔۔ وہ فلاں اچھی برانڈ والی آئس کریم شاید کوئی جنتی میوے کے مترادف ہو گی۔۔۔ وہ بھی دیکھ لی۔۔۔ انجان قسم کے پھل بھی چکھ کر دیکھ لیے۔۔۔۔
لیکن نہ بچپن جیسا مزہ، نہ تسلی اور نہ تسکین۔
وجہ؟

وجہ یہ کہ
۱۔ انسان ان چیزوں کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے جو ابھی نہ ملی ہوں۔ جیسے ہی مل جائیں تو وہ مزید کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے۔ اور ملی ہوئی نعمتیں اس کو نظر ہی آنا بند ہو جاتی ہیں۔
۲۔ جس نعمت کا افراط ہو جائے، اس کو بہت زیادہ استعمال کرنا شروع کر دیں تو اس سے ملنے والی تسکین بھی رفتہ رفتہ کم ہو کر ختم ہو جاتی ہے۔ (اور یہی انسانی دماغ میں ڈوپامین کا فنکشن ہے)۔

ایک دوست کا تبصرہ پڑھا، کہ” صرف سٹرابیری اور خربوزے موجود ہیں، جبکہ کیلے تو بہت مہنگے ہیں۔ فروٹ چاٹ کیسے بنائیں؟”
(اگرچہ دوست نے اس تبصرے سے رجوع کر لیا)
اس پر بھی یہی خیال آیا تھا کہ یہ دو سو روپے کلو سٹرابیری ۔۔۔ کلموہی فروٹ چاٹ بھی نہیں بنا سکتی۔۔۔ کبھی میں صرف تصاویر میں دیکھا کرتا تھا اور اس کے ذائقے سے ہی ناآشنا تھا۔۔۔ لیکن سرخی مائل انگور اور سٹرابیری کے ذائقے سے ناآشنائی ، اور سال میں صرف ایک دو بار آئس کریم کھانے والے دن بہت ہی بہتر تھے۔ ۔۔۔ کیونکہ بعد میں نعمتیں استعداد میں آ بھی گئیں تو ان کو گرانٹڈ لے کر مزید کی جانب شوہدے پن سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اور میری ناشکری کی بنا پر ان ملی ہوئی نعمتوں نے تو گویا نظر آنا ہی بند کر دیا۔

شاید آپ سوچتے ہوں گے کہ آپ کے پاس فلاں کھانے کی چیز ہے لیکن فلاں تو ہے ہی نہیں۔ فلاں پھل ہے لیکن فلاں تو خرید نہیں سکتے۔۔۔۔ چھوٹا گھر ہے۔ بڑا تو ہے نہیں۔۔۔ سائیکل ہے ، موٹر سائیکل ہے، کار تو نہیں ۔۔۔۔۔ سستی کار ہے۔۔۔۔ مہنگی والی نہیں۔۔۔۔ اچھی گاڑی اور گھر ہے لیکن بڑے محلات نما گھر اور مہنگی ترین گاڑیاں تو نہیں۔۔۔۔ تو جان لیں، کہ محلات میں رہنے والے اور مہنگی گاڑیاں استعمال کرنے والے اور مہنگے ترین کھانے کھانے والے بھی ان نعمتوں کو پا کر اسی “اب کیا کیا جائے” والے کیفیت میں پہنچ چکے ہوتے ہیں۔

اس لیے۔۔۔ زندگی میں جو ملا ہے میرے دوست۔۔۔ اس کی جانب بھی کچھ نظر۔۔۔۔

آپ کے ساتھ ایک اور بچپن کی خوبصورت یاد شیئر کر دوں۔
جب مجھے کھانے کی کوئی ایسی چیز مثلاً سبزی وغیرہ ملتی تھی جو اتنی پسند نہ تھی تو میں تصور کر لیتا تھا کہ میں کئی دنوں سے صحرا میں بھٹکتا پھر رہا ہوں جہاں دور دور تک کوئی سبزہ نہیں تھا۔۔۔ کچھ کھانے پینے کو نہ تھا۔۔۔ پھر مجھے بالآخر ایک جھونپڑی نظر آئی۔۔۔ کئی دن کا بھوکا تھا۔۔ وہاں بالآخر کھانے کو کچھ مل ہی گیا۔ اور وہ انمول نعمت یہی سبزی تھی ۔۔۔ تو اس صورتِ حال میں ، جب میں کئی دن کا بھوکا تھا، اس سبزی کو چشم زدن میں ہڑپ نہ کر جاتا؟ اور یہ مجھے دنیا کی کسی بھی نعمت سے بڑی نعمت نہ لگتی؟

اور نہیں تو صرف صاف پانی پر ہی بات کر لیں۔ افریقہ کے بہت سے ممالک میں پینے کو صاف پانی دستیاب نہیں۔ صرف بارش ہی صاف پانی کی جھلک دکھاتی ہے کبھی ۔ لیکن وسائل اتنے نہیں ہوتے کہ بارش کے پانی کو صاف ستھر ا محفوظ رکھا جا سکے۔ اس لیے اکثر پانی گدلا ہوتا ہے۔ تو جب کوئی ان افریقیوں کی ایسی آبادی میں جائے جہاں بچے سالہاسال سے گدلا پانی پیتے ہیں، تو کوئی ان کو صاف شفاف پانی کا ایک گلاس یا ایک بوتل انڈیل کر دکھا دے تو پانی کے قطرے گویا ان کے لیے چمکتے ہیرے موتیوں کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ “پھوکا پانی ” نہیں پی رہے بلکہ کوئی آبِ حیات پی رہے ہیں جو ہیروں جیسی چمک کا حامل ہے۔ اللہ ہی اللہ۔۔۔ کیا لگثری ہے۔۔۔ کیا عیاشی ہے۔۔۔

واپس آتے ہیں۔۔۔۔ افطاری پر سادہ پھوکا پانی؟
صرف شربت؟ وہ بھی اتنا سا؟
ارے یہ کیا؟ پکوڑے بنائے لیکن سموسے تو بنائے ہی نہیں۔۔۔۔ فلاں پھل کیوں اتنا مہنگا ہے؟ چاٹ کیسے بنائیں؟

جو ملا ہے اس پر شکر۔۔۔ کیونکہ
حسرتوں کے کشکول کو صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ اور پھر وہ ایسا بھرتی ہے کہ ساری بھوک اور ساری لذتیں ہی ختم شد ہو جاتی ہیں۔ اور باقی رہ جاتی ہے ایک گمنام مٹی کی ڈھیری۔۔۔۔

تحریر: Usman EM