سوال

میرے شوہر نے وقتا فوقتا مجھے کئی دفعہ طلاق دے دی ہے۔ میں نے فتوی بھی لیا تھا، جس میں بتایا گیا کہ ہمارے درمیان طلاق ہوچکی ہے، اور اب رجوع کی کوئی صورت نہیں۔ لیکن میراخاوند مجھے پھر بھی تنگ کرتا تھا کہ طلاق نہیں ہوئی وغیرہ۔

میں نے گھر والوں کے مشورے سے عدالت کے ذریعہ خلع بھی لے لیا، تاکہ اس کا منہ بند کرسکوں ۔ کیا طلاق کے بعد اس طرح خلع لینا درست ہے؟ اور اس خلع کے بعد مجھے عدت گزارنا ضروری ہے، یا پھر پہلی والی عدت ہی کافی ہے؟

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

سائلین کو چاہیے سوال کرتے وقت مکمل وضاحت کیا کریں۔جیسا کہ اس سوال میں بھی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ کتنی مرتبہ طلاق دی گئی؟ وقفے وقفے سے دی گئی  یا ایک ہی مجلس میں دی گئی؟ اور پہلی اور دوسری طلاق کے بعد رجوع ہوا تھا یا نہیں؟  حالانکہ کے ان سب باتوں کی وضاحت ہونی چاہیے تھی تاکہ اسی کے مطابق مسئلہ قرآن و سنت سے بتایا جاتا۔

اب اگر پہلی اور دوسری طلاق تھی، اور دوران عدت اس نے خلع لیا ہے، تو خلع اس کا صحیح ہے اور اس خلع کی عدت  اس کو گزارنا ہوگی۔ جو کہ ایک حیض ہوتی ہے۔ (سنن ترمذی:1185)

اوراگر طلاق کی  عدت گزر جانے کے بعد اس نے رجوع کیا ،یا خلع لیا ہے، تو یہ صحیح نہیں۔ کیونکہ یہ عورت اس کی بیوی نہیں رہی، اور نہ ہی یہ  مرداس کا خاوند ہے، تو خلع لینا محل نظر ہے کیونکہ یہ خلع کا محل ہی نہیں تھا۔

اگر تیسری طلاق کے بعد اس نے خلع لیا ہو، چاہے عدت کے اندر ہو یا عدت کے بعد ، پھر بھی یہ خلع نہیں ہے۔کیونکہ خلع خاوند سے ہوتا ہے ،جب وہ خاوند رہا ہی نہیں، تو پھر اس سے خلع لینے کا فائدہ کیا ہے؟!

اسی طرح نکاح ختم ہوگیا، اور عدت گزر چکی ، تو پھر خلع کی الگ  سے عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ طلاق کی عدت گزارنا ہی کافی ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ