سوال

میری اور میری بہن کی شادی ایک ہی گھر میں وٹہ سٹہ پر ہوئی تھی، آج سے چار سال قبل میرے بہنوئی نے میری بہن کو طلاق دی، تو میں نے بھی غصے میں آکر اس کی بہن کو ایک طلاق دے دی،پھر  ہمارا رجوع ہوگیاتقریبا بارہ دن قبل پھر یہی سلسلہ ہوا  کہ میری بہن کو طلاق دی گئی، تو میں نے بھی اپنی بیوی کو بیک وقت تین بار طلاق دے دی لیکن اب مجھے احساس ہوا کہ اگر میرا بہنوئی میری بہن پر ظلم کرتا ہے، تو بالمقابل مجھے اپنی بیوی کو سزا  نہیں دینی چاہیے، لہذا میں چاہتا ہوں کہ میں رجوع کرلوں کیا میرے لیے رجوع کی گنجائش ہے؟

میں یہ بھی عرض کردوں کہ میرا تعلق بریلوی مسلک کے سیفی گروپ سے ہے، ان کے نزدیک تو رجوع ممکن نہیں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں ایک مسلمان ہوں، مجھے قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔  لہذا برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں میری رہنمائی کریں۔

جواب

الحمدلله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

ہمارے معاشرے میں رائج وٹہ سٹہ کی شادی میں بہت قباحتیں ہیں۔ان میں اہم قباحت یہ ہے کہ اگر ان میں سے ایک کو طلاق دی جاتی ہے۔دوسری بے قصور ظلم و ستم کی چکی میں پسنا شروع ہوجاتی ہے۔آخرکار اس کو بھی بلا وجہ طلاق مل جاتی ہے۔

اگر طلاق نہ بھی ملے تو ساری زندگی ظلم و ستم اور طعنے برداشت کرتے ہوئے مشکل میں زندگی گزارتی ہے۔

اسی وجہ سے  بعض اہل علم نے اس قسم کے نکاح کو جس میں شرط لگاکر  ایک دوسرے سے رشتہ لیا، دیا جائے، ’نکاح شغار‘ قرار دیا ہے، جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ (مجموع فتاوى ابن باز: 20/280)

حالانکہ پہلی کو تو طلاق ہوئی، جبکہ دوسری کا گھر خواہ مخواہ خراب ہوتا ہے۔یہ سب کچھ وٹہ سٹہ کی شادی ہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ایک کی بہن کو طلاق ہوئی تو اس نے غصے میں آکر اپنی بیوی کو بھی طلاق دے دی پھر بعد میں رجوع کرلیا۔

تو یہ ایک طلاق شمار ہوگی۔کیونکہ ایک مجلس میں دی ہوئی تین طلاقیں قرآن و سنت کی روشنی میں ایک ہی شمار ہوتی ہیں۔

ایک پہلے طلاق ہوئی اور دوسری یہ ہوئی تو دو طلاقیں ہو گئیں۔اگر عدت نہیں گزری تو اس کو چاہیے کہ رجوع کر کے اپنے گھر کو آباد کر لے۔

جس مسلک سے یہ شخص تعلق رکھتا ہے اگرچہ ان کے ہاں کام ختم ہوگیا لیکن قرآن اور سنت کی روشنی میں ابھی گنجائش باقی ہے کہ وہ رجوع کر کے اپنے گھر کو آباد کرلے۔ (تفصیلی دلائل کے لیے فتوی نمبر 17 ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)

دو طلاقیں ہو چکی ہیں، اب ایک اختیار اس کو باقی ہے۔اگر آئندہ اس نے اپنے اس اختیار کو استعمال کیا تو پھر مکمل طلاق ہوجائے گی ۔ اور رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔کیونکہ تیسری طلاق فیصلہ کن طلاق ہوتی ہے جیسا کہ قرآن عظیم میں ہے:

“فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَه”. [سورۃ البقرہ:230]

’پھر اگر اس کو (تیسری بار) طلاق دے دے تو اب اس کے لئے حلال نہیں جب تک وه عورت اس کے سوا دوسرے سے نکاح نہ کرے‘۔

اس لیے تیسری طلاق کے بعد نکاح ختم ہو جاتا ہے پھر عدت گزارنے کے بعد وہ عورت  گھر بسانے کی نیت سے کسی  دوسرے شخص سے نکاح کرے گی ،اگر وہ شخص فوت ہوجائے یا اپنی مرضی سے طلاق دے دے تب یہ عورت عدت وفات یا عدت طلاق گزارنے کے بعد پہلے خاوند سے نکاح کر سکتی ہے۔لیکن اس طرح کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔

اب اس شخص  کو چاہیے احتیاط سے کام لے کیونکہ آخری اختیار فیصلہ کن ہوگا اور اس کے بعد معاملہ ختم ہو جائے گا۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الرؤف بن  عبد الحنان حفظہ اللہ