سوال
کسی کا سامان فروخت کر کے کمیشن لینا کیسا ہے۔مثال کےطور پہ میرا موبائل 5000ہزار کا ہے، آپ اسکو کسی کو دلواتے ہیں، اس شرط پہ کہ میں اس میں کمیشن لوں گا، کیا یہ کمیشن لینا جائز ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اس کی مختلف صورتیں ہیں، کچھ جائز اور کچھ ناجائز ہیں، مثلا:
وہ افراد جو کسی کمپنی میں ملازم ہوں، اور کمپنی کا مال بیچنے یا کمپنی کے لیے مال خریدنے پر مامور ہوں، اور اس کام کی تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں، ان کے لیے کمیشن وصول کرنا شرعاً جائز نہیں۔
نیز وہ شخص جس کو کسی نے مال خریدنے کے حوالہ سے اپنا وکیل بنا کر بھیجا ہو، اس کے لیے قیمتِ خرید سے زائد خریدار سے بطور کمیشن وصول کرنا بھی جائز نہیں۔
اسی طرح سرکاری شعبوں میں مختلف کاموں کے لیے ذمہ داران جو رقم کمیشن کے نام سے وصول کرتے ہیں وہ لینا بھی جائز نہیں۔
اس سے ہٹ کر مارکیٹ میں جو افراد ، دوسرے افراد یا کمپنیوں کا مال کسی اور کو دلواتے یا خرید کر دیتے ہیں، اور ایک طرف سے یا دونوں اطراف سے اپنا طے شدہ کمیشن لے لیتے ہیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ بس اس میں جھوٹ اور دھوکے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ بعض لوگ کمیشن دونوں طرف سے لیتے ہیں، لیکن کہتے ہیں کہ میں کچھ نہیں لے رہا، یہ درست نہیں۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبی سعیدی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو محمد إدریس اثری حفظہ اللہ