سعودی عرب کے شہر طائف میں ایک جگہ سے کچھ درخت وغیرہ ہٹائے گئے ہیں، وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ لوگ وہاں بہ کثرت شرکیات و غیر مشروع کاموں میں مبتلا ہونا شروع ہوگئے تھے ۔
اس پر کچھ ملحد بھی چیخے ہیں (حالانکہ ان کا بھونکنا سمجھ سے باہر ہے) ، اور کچھ سنی بھی شکوہ کناں ہوئے ہیں، جو سعودیہ میں رائج دین کی تعبیر سے اختلاف رکھتے ہیں، میں ان دنوں چونکہ ایک اور معاملے میں مصروف ہوں، اس لیے اس حوالے سے زیادہ پوسٹیں اور ویڈیوز باوجود سامنے آنے کے پڑھ یا سن نہیں سکا۔ سنا ہے بعض حضرات اسے بہت سنگیں مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں، خیر سعودیہ سے ہمیں نظریاتی طور پر اتفاق ہے، لیکن اختلافی نوٹ بھی ہم ڈٹ کر لگاتے ہیں، الحمد للہ.

لیکن اس قسم کے معاملوں میں سعودیہ کا طرز عمل مجموعی طور پر درست ہے، سعودیہ نے جو کیا، وہ درست سمجھ کر کیا، اور جو اس پر تنقید کر رہے ہیں یہ ان کا حق ہے، انہیں کرنا چاہیے۔ اسی ضمن میں آکسفورڈ میں مقیم ایک عالم دین کی پوسٹ نظر سےگزری، جس میں انہوں نے ایک تو عرب لوگوں کی عیاشیوں پر تنقید کی، دوسرا آثار قدیمہ سے متعلق ان کے رویے پر تنقید کی، بلکہ ایک مباحثے کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے کس طرح ایک ’ عرب عالم دین ‘ کو لاجواب کردیا۔

میں چونکہ ایک عرصے سے مدینہ منورہ میں مقیم ہوں، لہذا ان چیزوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے، اس لیے موقعہ مل جائے تو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ضائع نہیں کرتا، ان محترم عالم دین کی پوسٹ پر کیا ہوا، اپنا کمنٹ یہان نقل کرتا ہوں اور ساتھ یہ بھی عرض کرتا ہوں، میں عربی عالم دین ہوں نہ مجھے علامہ فہامہ ہونے کا کوئی زعم ہے، پاکستانی ہوں دین کا طالبعلم ہوں، اگر کوئی صاحب مدینہ منورہ میں آکر یا آن لائن کسی طریقے سے ایسے مسائل پر افہام و تفیہم کرنا چاہیں، تو میں حاضر ہوں۔ اب میرا وہ کمنٹ ملاحظہ کیجیے:
آپ نے عربیوں کی جس بے راہ روی کا ذکر کیا ہے ، یہ تنقید درست ہے ، جبکہ دوسری بات درست نہیں ، میں الحمد للہ ایک عرصے سے یہاں رہتا ہوں ، یہاں آثار قدیمہ مکمل حفاظت کے ساتھ موجود ہیں ، البتہ جن چیزوں کی کوئی تاریخی یا اثری حیثیت نہیں ، یہ اگر لوگوں کی گمراہی کا باعث بن رہی ہوں ، تو یہ بعض دفعہ اسے ختم کردیتے ہیں ، اسی طرح اگر کوئی تاریخی مقام پر بھی لوگ مغالطوں کا شکار ہورہے ہوں ، تو وہاں بھی ان چیزوں کو روکنے کا بندو بست کرتے ہیں …. کہنے کو تو یہی کہا جاتا ہے کہ ہم شرک نہیں کرتے ، لیکن روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے برآمد ہونے والے مختلف زبانوں میں خطوط اور پرچیاں اس دعوی کی تردید کرتی ہیں ، خود میں یہاں ہوتا ہوں ، روز دیکھتاہوں ، اور باوجود منع کرنے کے لوگ نہیں رکتے ، یہاں قرآن ، حدیث اور تاریخ سے متعارف کروانے کے لیے بہترین نمائشیں اور میوزیمز قائم کیے گئے ہیں ، جن میں سے کچھ فری ہیں ، اور کچھ تھوڑا معاوضہ ادا کرکے ، ان میں موجود چیزیں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں ۔ اگر انہیں واقعتا آثار سے اتنی دشمنی ہوتی تو آج مدینہ منورہ میں زیارتیں موجود نہ ہوتیں ۔
رہی بات یہ ہے کہ اختلافی مسائل میں وہ لوگوں کو اپنی رائے اور موقف کا پابند بناتے ہیں ، تو نظام کو منظم و مرتب رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے ، ہم بعض دفعہ چار صفوں کی اپنی مسجد میں کسی دوسرا موقف رکھنے والے مولوی کی تقریر برداشت نہیں کرتے ، بعض لوگوں نے مساجد کے باہر بورڈ لکھ کر لگائے ہوئے ہیں کہ فلاں فرقے والے یہاں نمازنہ پڑھیں ، یا نماز میں فلاں فلاں کام نہ کریں کہ یہاں ڈسپلن خراب ہوتا ہے ، تو یہاں اتنی بڑی جگہ پر بھی انہیں کچھ انتظامی فیصلے کرنا ضروری ہوتے ہیں ۔.. اور یہ کام صرف سعودی حکومت نے ہی نہیں کیا ، جب اس سے پہلے دوسرے لوگ تھے ، ان کے رویے بھی دوسروں کے لیے بعض دفعہ سمجھنا مشکل ہوجاتے تھے ۔
میرے خیال میں عوام کو گائیڈ کرنے کی ضرورت ہے ، عوام یہاں آکر وہ وہ کام کرتے ہیں ، جو خود ان کے علما کے نزدیک بھی جائز نہیں ، وسیلے کی بحث سے ہٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست مانگنا ، یہ تمام سنی فرقوں کے علما کے نزدی جائز نہیں ، لیکن عوام یہاں آکر یہ سب کچھ کرنے پر مصر رہتی ہے ۔
آپ نے یہ پوسٹ شاید طائف میں ایک جگہ پر گرائے جانے والے درختوں کے پس منظر میں کی ہے ، اسی قسم کا کام خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور حکومت میں کروا چکے ہیں ۔ حالانکہ وہ بیعت رضوان والا درخت تھا ، جبکہ جو درخت اب گرائے گئے ہیں ، ایسی چیزیں تو خود بخود لوگ ایجاد کرلیتے ہیں۔
(انٹرنیٹ پر موجود ویڈيوز اور تصویریں، ہمارے اس دعوی کی دلیل ہے کہ لوگ یہاں تعظیم کی حدوں کو پھلانگ کر شرک میں مبتلا ہوتے ہیں، کہنے کو وسیلہ کہتے ہیں، جبکہ عملا صریح شرکیہ افعال، جو کسی بھی فرقہ کے عالم دین کے نزدیک جائز نہیں)

کیا سعودیہ آثارِ قدیمہ کا دشمن ہے؟

مسجد نبوی کے پاس قرآن کریم کے قدیم نسخوں کی نمائش میں آج میں نے دوران گفتگو ، کچھ حاجیوں سے پوچھا ، لوگ شور مچاتے ہیں کہ سعودیہ والے وہابی ’ آثار قدیمہ ‘ کے دشمن ہیں ، سب کچھ ڈھارہے ہیں ، یہ نمائش آپ کہاں دیکھ رہے ہیں ؟
کچھ لوگ تو گویا چونک اٹھے !
میں نے مزید کہا ، طائف میں ایک جگہ پر غیر معروف درختوں کو کاٹنے پر اخبارات اور میڈیا حرکت میں آگیا ہے ۔
جبکہ مسجد نبوی کے گرد دور سے ہی نظر آنے والی یہ ’ نمائشیں ‘ اور ’ میوزمز ‘ کئی سالوں سے حاجیوں کے لیے بالکل فری کام کر رہے ہیں ، کبھی کوئی خبر سنی ؟!
تیسری بات بھی عرض کردی کہ اختلاف ضرور رکھیں ، یہ آپ کا حق ہے ، لیکن پراپیگنڈہ نہ کریں ، اور نہ اس قسم کی سازشوں کا شکار ہوں ۔
ٹھیک ہے ، سعودیہ ہر پتھر ، اور درخت ، اور گلی کوچے میں زیارتیں ایجاد نہیں ہونے دیتا ، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ صحیح اور مستند تاریخی معلومات سے بھی انہیں کوئی خار ہے ۔
کھلی چھٹی دے کر تم نے دیکھ لیا ، ہر جگہ سے ’ موئے مبارک ‘ ، ’ کرتا شریف ‘ ، نعلین پاک ‘ اور ’ موزے ‘ برآمد ہورہے ہیں ۔ سعودیہ سے باہر ادھر ادھر جگہوں پر تاریخی و غیر تاریخی زیارتیں جاکر دیکھ لیں ، معلوم ہوجائے گا، کہ مشرکین کے بتوں اوربعض مسلمین کی زیارتوں میں کتنا فرق رہ گیا ہے ۔
ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بہما کتاب اللہ وسنتی
میں جن دو ’ تبرکات ‘ ، ’ آثار قدیمہ ‘ کا ذکر ہے ، اس کی بات کرلیں، تو وہی جو وہابیوں کو آثار قدیمہ کے دشمن قرار دیتے ہیں ، 135 دلیلیں دے کر ان ’ آثار قدیمہ‘ کو ’ آئین پاکستان ‘ طرح کا بنادیں گے ۔ جو ہے تو مقدس، لیکن قابل عمل اورلائق تنفیذ نہیں۔

مسجد نبوی کے ارد گرد آثار قدیمہ اور سعودی عرب کی کاوشیں

مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات ،ایپ کا تعارف