علامہ معلمی جو کہ ایک عرصہ تک یمن میں قاضی رہے تھے، انہوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ میں کوتاہی کے سبب مسلمانوں پر نازل ہونے والی مصیبت ’غربت دین‘ کا خوب نقشہ کھینچا ہے، فرماتے ہیں:
مدتیں گزر گئیں، شاید ہی کسی عالم دین کا نام سننے میں آئے، جو امر بالمعروف کے فریضہ کو اس شان سے قائم رکھے کہ کسی ملامت گر کی پرواہ نہ ہو. بلکہ اہل علم میں سے ہر دوسرے نے وہ حدیث یاد کر رکھی ہے کہ ’’فتن کے دور میں اپنے ایمان کو سنبھالیں، دوسروں کی برواہ نہ کریں.‘‘ اس حدیث سے نہ صرف وہ خود کو مطمئن رکھتا ہے، بلکہ اگر کسی کو انکار منکر کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے دیکھے، تو اس کو ملامت بھی کرتا ہے۔
صحابہ کے دور میں تیس سال بعد ہی یہ صورت حال بن گئی تھی، لیکن ابو سعید خدری بہت نڈر تھے، انکار منکر میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے، بات یہاں تک پہنچی کہ عبد الملک بن مروان کو کہنا پڑا، جس نے بھی مجھے اللہ سے ڈرنے کی ترغیب دی، اس کا سرتن سے جدا کردوں گا… بعد میں ملوک و امرا نے اسی جابرانہ روش کو وطیرہ بنالیا.إلا ماشاء اللہ۔
ابن طاوس وعمرو بن عبيد وغيره بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، کیونکہ وہ ان حالات میں بھی انکار منکرر کی جسارت سے باز نہیں آتے تھے۔
بہرصورت ڈنکے کی چوٹ بات کرنے والے علما انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں، اکثریت خاموشی میں ہی عافیت سمجھنے والی رہی، اور پھر بعد کے زمانوں میں تو کیا ملوک کیا علماء اور کیا عوام الناس، سب منکرات کے سیل رواں میں بہنے لگے، مٹھی بھر افراد میں سے ہمت کرکے أگر کسی نے کوئی جاندار جملہ بول ہی دیا، تو عوام الناس نے کہا: یہ تو علماء کا مخالف اور آباد و اجداد کے دین کا منکر ہے. علماء نے کہا: یہ تو اجماع کا مخالف اور ابتداع کا دلدادہ لگتا ہے، اور حکمرانوں نے کہا: یہ بندہ تو پر امن سلطنت میں فتنہ و اضطراب کو آواز دے رہا ہے، یہ سیدھی راہ سے ہٹ گیا ہے، کیسے ہوسکتا ہے کہ سب علماء کو چھوڑ کر حق اس کے پاس ہو. مصلحت کا تقاضا ہے کہ اس کو ڈانٹ ڈپت اور سزا سے دور چار کیا جائے۔
اس صورت حال کو دیکھ کر اہل حق اور اسلام پسند بھی یہ کہنے لگے: یہ دیوانہ خوامخواہ خود کو مشکل میں ڈال رہا ہے، اور تباہی کا رستہ اختیار کر رہا ہے، حالانکہ جس طرح باقی سب وسعت ورخص سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اسے بھی یہی کرنا چاہیے تھا۔ یوں آہستہ آہستہ دین اجنبی ہوگیا وإنا للہ وإنا ألیہ رجعون.
علامہ کی عبارت میں جو ابلاغ ہے اردو ترجمانی اس سے محروم ہے، اصل عربی عبارت ملاحظہ کیجیے:​
قد مضت عدة قرون لا تكاد تسمع فيها بعالم قائم بالمعروف لا يخاف في الله لومة لائم، بل لا تجد رجلاً من أهل العلم إلا وهو حافظ لحديث: “حتى إذا رأيت هوى متَّبعًا وشُحًّا مطاعًا وإعجاب كل ذي رأي برأيه فعليك بخويصة نفسك ودع عنك أمر العامة” يعتذر به عن نفسه ويعذل به من رآه يتعرّض لإنكار شيءٍ من المنكر.
وقد وُجد ذلك في آخر عصر الصحابة بعد الثلاثين سنة, فكان أبو سعيد الخدري رضي الله عنه واحد عصره في التجاسُر على إنكار المنكر بقدْرِ الإمكان، حتى شدّد في ذلك عبد الملك بن مروان، خطب على منبر وقال:”والله لا يقول لي أحدٌ: اتق الله، إلا ضربت عنقه … ” ثم توارثها الملوك والأمراء إلا مَن شاء الله.
ولهذا عَظم عند الناس ابن طاووس وعمرو بن عبيد وغيرهما ممن كان يتجاسر على النهي عن المنكر.
وعلى كل حال فالمعروفون من العلماء بذلك أفراد يعدون بالأصابع والجمهور ساكتون. وأما في القرون المتأخرة فشاعت المنكرات بين الملوك والأمراء والعلماء والعامة ولم يبق إلا أفراد قليلون لا يجسرون على شيء فإذا تحمّس أحدهم وقال كلمةً، قالت العامة: هذا مخالف للعلماء ولما عرفنا عليه الآباء.
وقال العلماء: هذا خارق للإجماع مجاهر بالابتداع.
وقال الملوك والأمراء: هذا رجل يريد إحداث الفِتن والاضطرابات، ومن المحال أن يكون الحق معه، وهؤلاء العلماء ومن تقدمهم على باطل، وعلى كلًّ فالمصلحة تقتضي زجره وتأديبه!
وقال بقية الأفراد من المتمسكين بالحق: لقد خاطر بنفسه وعرّضها للهلاك، وكان يسعه ما وَسِع غيره!
وهكذا تمَّت غُربة الدين، فإنا لله وإنا إليه راجعون!​

(موسوعة آثَار الشّيخ العَلّامَة عَبْد الرّحمن بْن يحْيَي المُعَلّمِيّ اليَماني 114/5)​

اس بات کو مزید تفصیل کے ساتھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ حکمران کی بے راہ روی کی تین صورتیں ہیں:
1۔ وہ خود عیاشی میں مبتلا ہو، محرمات کا ارتکاب کرے، لیکن اس کی خرابی اسی تک محدود ہو، عوام اس سے متاثر نہ ہوں، ایسی صورت میں اس کو ذاتی طور پر نصیحت کرنی چاہیے۔
2۔ وہ کسی کا مال ہڑپ کرے، ظلم و ستم کرے، لیکن دینی شعائر کا تحفظ کرتا ہو، اور شوکت اسلام کا ذریعہ بن رہا ہو، ایسی صورت میں ابن حزم کا وغیرہ کا موقف تو یہ ہے کہ اپنا حق لینے کے لیے حاکم کے خلاف سینہ سپر ہونا جائز ہے، اور صحابہ و تابعین سے ایسے آثار بھی ملتے ہیں، لیکن علما کی اکثریت کا موقف یہ ہے کہ ایسی صورت میں اپنے ذاتی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے، اس کی آزمائشوں پر صبر کرنا چاہیے۔ اور حدیث میں بھی اس کی صراحت ہے: وإن جلد ظهرك وأخذ مالك-
3۔ وہ شعائر اسلام کو ڈھانے والا اور لا دینیت کی سرپرستی کرکے اسے پھیلاتا ہو، ایسی صورت میں پہلے دو صورتوں میں بیان کردہ کوئی پابندی باقی نہ رہے گی، ایسے شیطان صفت کی منکرات و تجاوزرات پر اعلانیہ انکار ایک فریضہ ہے، اگر ساری امت ہی خاموش رہے، تو سب گناہ گار ہوں گے۔ حدیث میں ما أقاموا فیکم الصلاۃ، ما أقاموا فیکم کتاب اللہ، وغیرہ جیسی بنیادی قیود میں اسی چیز کا بیان ہے۔ اگر حکمران کے لیے ہر وقت ہی صبر اور خاموشی کا حکم ہو تو یہ قیود بے معنی رہ جاتی ہیں۔
کسی ایک حدیث میں یہ نہ ملے گا، کہ حاکم وقت اگر تمہارے دین کا بھی بیڑھ غرق کردے، تو تم نے خاموش رہنا ہے، کچھ لوگ کج بحثی کرتے ہوئے، وإن جلد ظهرك وأخذ مالك والی حدیث کو یہاں فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بعض لوگوں میں خرابی کی بڑی وجہ انہیں مختلف حالات میں فرق نہ کرنا ہے۔ حالانکہ تمام احادیث وآثار کو جمع کرنے سے یہی مفہوم سمجھ میں آتا ہے، واللہ أعلم۔
البتہ انکار منکر کا ایک عمومی اصول ہے کہ وہ بذات خود فساد کا ذریعہ نہ بن رہا ہو، بلکہ اس سے مصلحت مقصود ہو. اس کا حکمران کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، ایک عمومی اصول ہے. بعض لوگ اس میں بھی خلط مبحث کا شکار رہتے ہیں۔