بے احتياطى اور بد پرہيزى كى وجہ سے علماء کرام كى صحت كے مسائل بڑهتے جا رہے ہيں، لوگ ان پر جملے كستے ہيں، ان كا مذاق اڑاتے ہيں، اس كى وجہ سے دين كى بدنامى ہوتى ہے، اور علم كى عظمت پر حرف آتا ہے۔

سب سے بد نما چيز ان كى فربہی، جسم كى بے اعتدالى، اور شكمِ پُر رعب كى ہیئت كذائى ہے۔ كچھ لوگوں كى تونديں عمیق غار لگتى ہيں، اوپر سے جب صدرى يا شيروانى پہنتے ہيں، تو بهدے پن كى حد تک پہنچا ہوا سينہ اور پيٹ كا عدم تناسب چهلكتا ہوا نظر آتا ہے، اور انہيں “شبیہ قبہ وتصوير منبر” گردانا جاتا ہے۔

بات صرف جسم كى ناہموارى پر نہيں ركتى، بلكہ موٹا پے كا شمار متعدى امراض ميں ہوتا ہے۔ یعنی یہ موذى بيمارى پيٹ سے متجاوز ہوكر جسم كے دوسرے حصوں اور پورے نظام صحت كو متاثر كرتى ہے۔ اسى سے ذيا بيطس اور دل كى بيماريوں كى شكايت جنم لیتی ہے۔

استاذ گرامى مولانا ابو العرفان ندوى رحمۃ اللہ علیہ كهانے كے شوقين تهے۔ فربہی سے شوگر كى بيمارى لگى، اس كے باوجود احتياط سے پرہيز كرتے تھے۔ ايک مرتبہ كسى نے مولانا كو رس گلوں كا ايک ڈبہ ہدیہ كيا۔ آپ حسب معمول شوق سے رس گلے پر رس گلا كهانے لگے، انہيں ان كى بيمارى ياد دلائى گئى تو فرمانے لگے كہ ميں شكر ميں خود كفيل ہوں نہ کہ رس گلوں ميں۔

ندوه كے سابق مہتمم مولانا عمران خان ندوى رحمۃ اللہ علیہ كو ڈاكٹروں نے گوشت كهانے سے منع كرديا، تو بڑے اطمينان سے یہ تاريخى جملہ ادا كيا كہ آخر قبر كون سى برى جگہ ہے؟

ہم نبى كريم صلى الله علیہ وسلم كى سنتوں كے اتباع كے مدعى ہيں۔ آپ صلى الله عليہ وسلم كا بطنِ مبارک سينہ كے مقابلہ ميں اندر تها۔ یہی حال عام صحابہ كرام رضی اللہ عنہم اور صالحین رحمہم اللہ كا تها۔ كيا اچها ہوتا كہ علماء اس روايت كو برقرار ركهتے اور بجائے زبان كے ان كا پيٹ آئينہ شمائل پیغمبر ہوتا۔

اگر آپ اس عيب كو دور كرنا چاہتے ہيں تو دو چيزوں پر خاص توجہ كريں:

1- ايک تو يہ كہ روزانہ ہلكى پهلكى ورزش كريں۔ كم از كم آدها گهنٹہ دوڑيں۔ اور صبح وشام ايک ايک گهنٹہ تيز رفتار ى سے چلیں، يہ تقريبا تين گهنٹے ہوں گے۔ انہيں وقت كا ضياع نہ سمجھیں، سوچيں كہ بيماريوں ميں لوگوں كا كتنا وقت اور پيسہ برباد ہوتا ہے۔

اگر ہاتهوں ميں زور نہ ہو اور جسم ميں پهرتى نہ ہو تو محنت نہيں ہو سكتى۔ اس كے برعكس صحت وتوانائى سے آپ كے نشاط ميں اضافہ ہوگا، اور آپ دماغى كار كردگى بڑهے گى۔

نیز آپ چلنے كے دوران تسبیحات پڑھ سكتے ہيں، تدريس وتصنیف كے مضامين پر غور وفكر كرسكتے ہيں، كسى موضوع پر جتنا وقت مطالعہ ميں صرف ہوتا ہے اس سے زياده وقت اس پر تدبر كرنے ميں لگانا چاہیئے۔

2- دوسرى بات يہ ہے كہ آپ كهانے كا نظام درست كريں، پيٹ بهر كر كهانا، فربہى كے بار سے الٹى سانسيں لينا، اور توند كا سہلانا آپ كى جلالت شان وامامت كے خلاف ہے۔

آپ كيا كهائيں؟ كب كهائيں؟ كتنا كهائيں؟ یہ تينوں سوال بہت اہم ہيں، ان كا خيال ركهنے پر آپ كى صحت كا انحصار ہے۔ یہ تينوں چيزيں نہ آپ كے شاگردوں اور مريدوں كے طے كرنے كى ہيں، اور نہ ہى آپ كے ميزبانوں كو ان كا فيصلہ كرنا ہے، بلكہ ان كى فكر صرف آپ كو كرنى ہے۔

آپ كيا كهائيں: ميٹھی، نمکین اور چكنى غذاؤں ميں بہت قلت كريں۔ ساده كهانا كهائيں، يہ معمول ناشتہ اور دوپہر كے كهانوں ميں ركهيں۔ شام كو روٹى اور چاول ہرگز نہ كهائيں، سلاد اور پهل وغيره پر اكتفا كريں۔

آپ كب كهائيں: صرف اس وقت كهائيں جب آپ كو سچى بهوک لگى ہو۔ زياده سے زياده تين وقت كهائيں، ناشتہ كريں، دوپہر كو كهائيں، اور شام كى غذا بالكل ہلكى پهلكى ركهيں۔

آپ كتنا كهائيں: اگر آپ كى عمر چاليس سال سے كم ہے تو ايک تہائى پيٹ كهائيں۔ ايسا ہرگز نہ ہو كہ آپ پيٹ بهريں اور ڈكاريں ليں۔ كسى تھیلے يا برتن وغيره كا بهرنا پيٹ بهرنے سے زياده برا نہيں۔ جب آپ چاليس سال كے ہو جائيں، تو خوراک مزيد كم كرديں۔ اور جب پچاس سال سے اوپر ہوجائيں تو شام كا كهانا بند كرديں۔

كم كهانے سے ہرگز نہ ڈريں، دنيا ميں زياده موتيں كهانے سے ہوتى ہيں نہ كہ بهوكا رہنے سے۔ ايک بار پھر ياد كرليں كہ زياده كهانے والے سست ہوتے ہيں، اور ان كى قوتِ فكر كمزور ہو جاتى ہے۔ اور كم كهانے والے متحرک ہوتے ہيں، اور ان كا دماغ نشیط ہوتا ہے۔ یعنی پيٹ بهرنا بلادت ہے اور پيٹ خالى ركهنا ذكاوت۔

ڈاكٹر محمد اكرم ندوى، آكسفورڈ