مولانا ولایت علی اور مولانا عنایت علی جیسی شخصیات جن کا تعلق عظیم آباد (پٹنہ) سے ہے، یہ سب کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے،عظیم آباد کی نمایاں شخصیات میں ان کا شمار ہوتا تھا، دنیاوی نعمتوں کی بھرمار تھی. لیکن جب سید احمد شہید کے ہاں بیعت ہوئے، سب کچھ اللہ کی راہ میں وقف کردیا، امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ چھوڑ کر سادہ طرز زندگی اپنالیا.
مولانا غلام رسول مهر نے سادگی کا ایک واقعہ لکھا ہے، کہ ایک دفعہ سید صاحب تکیہ( سید صاحب کا گاؤں) میں مریدوں کے ساتھ تعمیرمیں مصروف تھے .مولانا ولایت علی گارا تیار کررهے تھے، اسی اثنا میں عظیم آباد سے ان کے والد کا بھیجا ہوا ملازم پہنچ گیا، جو مولانا کے لیے قیمتی پوشاک اور بھاری رقم لے کر آیا تھا، آکر مولانا سے ہی پوچھنے لگا: ولایت علی صاحب کدھر ہیں؟ کہا: میں ہی ولایت علی ہوں، اس نے جب قائل کی ہیئت کذائی دیکھی کہ گارے میں لتھڑا ہوا ایک مبتذل سا شخص خود کو ولایت علی کہہ رہا ہے، تو مذاق سمجھ کر ناراض ہوگیا، بعد میں جب تصدیق ہوگئی تو بہت شرمندہ ہوا. بصد احترام ان کا سامان ان کے حوالے کیا. لیکن مولانا نے ان قیمتی اشیاء میں سے ایک چیزبھی خود نہ رکھی، بلکہ سید صاحب کو بیت المال میں جمع کروادی.
یہی عظیم آباد ہے، جو ہندوستان میں محاہدین کا مرکز رہا، بلکہ وہاں ایک جگہ ’قافلہ‘ کے نام سے مشہور ہوگئی تھی جہاں مجاہدین کے قافلے بہ کثرت آکر ٹھہرا کرتے تھے.
اہل عظیم آباد تحریک سیدین کے ساتھ اس طرح منسلک ہوچکے تھے، کہ انہیں سید صاحب کے غالی معتقد کہا جاسکتا ہے… جب سیدین کی شہادت ہوگئی، تو ان بزرگوں کی عقیدت نے اجازت نہ دی، کہ انہیں شہید مان لین، بلکہ کہا کرتے تھے، سید صاحب وقتی طور پر منظر عام سے غائب ہوگئے ہیں، مناسب حالات میں کسی بھي وقت واپس لوٹ آئیں گے۔( یہ عقیدہ کیوں بنا؟ اور اس کا پس منظر و پیش منظر کیا ہے؟ یہ الگ بات ہے، البتہ یہ عقیدہ اور محبت و عقیدت میں غلو قطعات درست نہیں، تحریکی و غیر تحریکی دیگر علماء اس کی ہمیشہ مخالفت کرتےر ہے)
سیدین کی شہادت کے کچھ سالوں بعد دعوت وتبلیغ کے میدان سے نکل کر یہ بزرگ سیدھا میدان کارزار میں جاپہنچے، اور بعد میں عظیم آباد سے اپنی ساری جائیداد بیچ کر وہ بھي راہ جہاد میں وقف کردی، اور ہمیشہ کے لیے سرحد میں ہی توطن اختیار کیا، ساری عمر سرحد کے مرغزاروں کو توحید و جہاد کے نغموں سے مسحورکرتے رہے. اور شہیدوں کی اسی سرزمین میں سپرد خاک ہوئے.
تحریک جہاد کی امارت بھي اسی خاندان میں چلی.
مولوی عبد الرحیم صاحب’ الدر المنثور فی تذکرۃ علماء صادق فور‘ یعنی ’تذکرہ صادقہ‘ بھی سرزمین عظیم آباد کے ہی سپوت تھے، مجاہدین کی اعانت کے قابل فخر جرم میں جزیرہ انڈیمان میں پندرہ بیس سال رہے، تمام جائیداد بھی اسی جرم میں ضبط کرلی گئی تھی، عظیم آباد سرزمین کے جس حصے پر تحریک ۤدعوت و جہاد کا کاروبار چلتا تھا، مسافر خانے، مدرسہ اور ان بزرگوں کی رہائش تھی، وہ سب انگریزی حکومت نے غصب کرکے، وہاں بلدیہ کا سلسلہ شروع کرلیا.
مولانا جب کالاپانی سے سزا کاٹ کر عظیم آباد لوٹے تو ’خراب دیار‘ دیکھ کر ضبط نہ کرسکے، وہاں کھڑےکھڑے حسرت سے چند اشعار نوک زبان پر آگئے، جو یہاں نقل کیے جاتے ہیں:
یا منزلا لعب الزمان بأھلہ
فأبادہم بتفرق لا یجمع
إن الذین عھدتہم بک مرۃ
كان الزمان بهم يضر و ينفع
أصبحت تفزع من يراك وطالما
كنا إليك من المعادل تفزع
ذهب الذين يعاش في أكنافهم
بقي الذين حياتهم لا تنفع
اللہ سب بزرگوں کی قبروں کو جنت کی کیاریاں بنائے، اور دین اسلام کے لیے کئی گئی ان کوششوں کو کاوشوں کوشرف قبولیت سے نوازے. اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم وقت کے تقاضوں کے مطابق احیائے اسلامیت کی تحریک بپا کرسکیں.


سید احمد شہید اور اور شاہ اسماعیل شہید کی بپا کردہ تحریک دعوت و جہاد برصغیر پاک و ہند کی سب سے عظیم تحریک ہے۔ اس پر سب سے تفصیل سے مولانا غلام رسول مہر نے لکھا ہے، انہوں نے اس سلسلے میں تین کتابیں تصنیف فرمائی ہیں:
سید احمد شہید، جماعت مجاہدین، سرگزشت مجاہدین
بعد میں ان تینوں کتابوں کو ’تحریک سید احمد شہید‘ کے عنوان کے تحت چار جلدوں میں چھاپا گیا، یہ سب کتابیں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔