معاشرے میں پھیلتی برائی اور بے دینی میں ایک بڑی وجہ وقت کے ارباب حل و عقد ہیں۔ جب برے اور اس کی برائیوں پر تنقید ہوگی، تو یہ لوگ بھي اس میں آئیں گے۔
اس ’انکار منکر‘ کے حوالے سے صورت حال یہ پیدا ہوچکی ہے کہ خود دین پسند طبقے میں ٹھیک ٹھاک اختلاف ہے، دو گروہ بن گئے ہیں، دوسرے گروہ کے نزدیک حکمرانوں پر تنقید کرنا اصلاح نہیں، بلکہ بذات خود ایک فتنہ ہے۔
ان کے نزدیک بہتر طریقہ یہ ہے کہ حکمرانوں سے جاکر ملاقاتیں کریں، انہیں خط و کتابت کرکے سمجھائیں، البتہ منبر و محراب کے ذریعے سے یہ کام سرانجام نہ دیں۔
میں سمجھتا ہوں، ان دونوں گروپوں میں سے آپ جس کو بھی درست سمجھیں، دونوں کا مقصد اگر موجودہ فساد کی اصلاح ہو، تو اپنے من پسند موقف کے مطابق اس اصلاح میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینا چاہیے۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آئے دن پرچم اسلامیت سرنگوں ہورہا ہے، ہر طلوع ہونے والا سورج اسلام پسندوں کے لیے پابندیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔
اور ’مصلحین‘ اصل ہدف کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کو اصلاح کے طریقے بتارہے ہیں، آسیہ مسیح کیس ہو، یا پارلیمنٹ میں شراب کے خلاف قرارد کی بات، ہر دفعہ بہت سارے لوگ اصل مسئلہ پر رد عمل دینے کی بجائے، ایک دوسرے کی غلطیاں نکالنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
ان کے نزدیک شراب کی حلت و حرمت اصل مسئلہ نہیں، ہاں البتہ شراب خوروں پر تنقید کرتے ہوئے تقریرون کے زیر وبم کو نوٹ کرنا ایک اہم مسئلہ ہے۔
آسیہ مسیح کیس کے خلاف جو سڑکوں پر نکل آئیں، ان کے خلاف فتاوی تیار کروانا ان کے نزدیک ایک اہم پراجیکٹ ہے، البتہ خود اس کیس میں عدالتی و قانونی کاروائی کا انہیں کوئی خیال نہیں۔
بہرصوت فساد کی اصلاح ایک اہم کام ہے، البتہ منہج و اسلوب کے نام پر ایک دوسرے سے ہی الجھتے رہنا کوئی مفید کام نہیں۔​

’’بیان و تبیین لبعض ما یجب فی الإنکار علے السلاطین‘‘ کے عنوان سے ایک مفید مقالہ نظر سے گزرا، جس میں حکمرانوں کی منکرات پر انکار کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں، مصنف نے شروع میں بیان کیا کہ حاکم وقت پر تنقید میں اصل یہی ہے کہ وہ سربازار نہ کی جائے، لیکن بوقت ضرورت اس سے ہٹ کر بھی کچھ اہم تفصیلات ہیں، جنہیں مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ پھر انہوں نے کچھ اہم باتیں بیان کی ہیں، جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
(1) اگر عالم دین اس مجلس میں موجود ہو، جہاں منکرات و برائیوں کا ارتکاب ہورہا ہو، تو پھر وہاں انکار و تنقید کرنا ضروری ہے، جیساکہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے مروان بن حکم پر تنقید کی تھی۔ ہاں البتہ اگر یہ خدشہ ہو کہ حاکم وقت تکبر و تعلی میں بات نہیں مانے گا، بلکہ فورا کوئی ایذا بھی پہنچا سکتا ہے، تو ایسے موقعہ پر خاموشی اختیار کرنا بھی سلف سے منقول ہے، جیساکہ حسن بصری سے کسی نے پوچھا، آپ امرا کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیوں نہیں کرتے؟ کہا: کیسے کریں؟ ان کی تلواریں ہماری زبانوں سے قبل حرکت میں آجاتی ہیں۔ ہاں البتہ ایسی صورت حال میں دیگر ذرائع سے حتی الامکان منکر کی مذمت کرتے رہنا چاہیے۔
(2) اگر حاکم کی برائی اور بے راہ روی اس کی ذات کی حد تک نہ ہو، بلکہ عامۃ الناس بھی اس کے شر سے متاثر ہوں، مثلا: جہاد کا انکار کردینا، شراب و سود کا جائز قرار دینا وغیرہ، تو ایسی صورت حال میں علما کی ذمہ داری ہے کہ اس موقعہ پر اعلانیہ تنقید کریں، اور اس موقف کی شدید مذمت کریں، تاکہ حکمرانوں کی پیروی میں عوام بھی غیرت دینی سے محروم نہ ہوجائے۔
(3) اگر کتاب وسنت کے خلاف کوئی مسئلہ حاکم کی نسبت سے بیان کیا جائے، تو عالم دین کو سنتے ہی اس پر رد عمل دینا چاہیے، تاکہ لوگ اس کے سکوت کو اس کے درست ہونے کی دلیل نہ بنالیں، ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رضاعت کے متعلق ایک مسئلہ پیش ہوا، ابن عمر نے اس کی تغلیط کی، کہا گیا، امیر المؤمنین کا بھی یہی موقف ہے، فرمایا: قضاء اللہ خیر من قضائک و قضاء أمیر المؤمنین۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس امیر شہر کا مسلح ایلچی آیا، اور کہا کہ’ کل محدثۃ بدعۃ‘ والی بات کہنا چھوڑ دو، آپ نے کہا، یہ میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔ مدارس و معاہد کے نصاب میں تبدیلی بھی بعض دفعہ ڈنڈے کے زور پر کروائی جاتی ہے، قرآن و حدیث، اور سیرت و صحابہ کو نکالنے کا حکم دیا جاتا ہے، مسلمانوں کو ایسے ناجائز احکامات کو جوتے کی نوک پر رکھنا چاہیے۔
(3) اگر حاکم وقت کسی عالم دین کے شرعی فتوی کو بگاڑ کر لوگوں کو پر ظلم و ستم اور زیادتی کی راہ ہموار کرے، تو اس مفتی اور عالم دین کو جس کے فتوی کو استعمال کیا جارہا ہے، اپنا موقف واضح انداز سے بیان کرنا چاہیے، اور عوام اور حکمرانوں ہر دو کے سامنے واضح کرنا چاہیے کہ میرے فتوی میں کسی قسم کی بے راہ روی یا ظلم و ستم کی قطعا حمایت نہیں۔ مسجد حرام میں ایک عورت سفیان ثوری کے پاس آئی، کہا، میرا بیٹا آپ کے سبب قید کرلیا گیاہے، سفیان ثوری فورا والی شہر کے پاس گئے، اور باصرار اس شخص کو حبس بے جا سے نجات دلوائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عربی مقالہ یہاں سے پڑھیں