علامہ عبد الرحمن ابن الجوزی چھٹی صدی ہجری کے جلیل القدر علما میں سے ہیں، ہر فن مولا تھے، اور اکثر علوم و فنون میں ان کی تصنیفات موجود ہیں، اسلامی وغیر اسلامی تاریخ میں کثرت تالیف کے اعتبار سے ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
ابن الجوزی ایک مصنف سے بھی بڑھ کر بلا کے خطیب و واعظ تھے، ماہر نفسیات اور نبض شناس مصلح تھے ۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کی مجالس وعظ و تذکیر میں شرکت کرتے ، عام لوگوں کے علاوہ زمانے کے وی آئی پیز اور حکمران طبقہ بھی ان کے درس و دروس میں حاضری دیا کرتے تھے۔
چند دن پہلے ایک رسالہ نظر سے گزرا، جس کا عنوان یوں تھا:​
’عطف العلماء علے الأمراء والأمراء علے العلماء‘
(علما و حکمرانوں کی ایک دوسرے پر توجہ اور شفقت)
یہ کتابچہ بذات خود بالکل مختصر ہے، آخر میں ذکر ہے کہ اسے ایک ہی دن کے کچھ حصے میں تصنیف کرلیا گیا تھا۔
البتہ محقق کے مقدمے، حالات مصنف، اور فہارس وغیرہ سے یہ تقریبا ساٹھ ستر صفحات تک وسیع ہوگیاہے۔
فرماتے ہیں، اہل علم اور اہل حکومت معاشرے کے دو بنیادی رکن ہیں، علما کے فتاوی نظریاتی خرابیوں سے محفوظ کرتے ہیں، جبکہ حکمران کا ڈنڈا سرکشوں کو درست کرنے کے لیے ضروری ہے۔
پھر فرماتے ہیں، اہل علم طبقہ عموما دو قسموں میں بٹا ہواہے:
نیک اور پیرہیز گار لوگ، یہ حکمرانوں سے دور رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں، تاکہ فتنے میں مبتلا نہ ہوں.
دوسرا مفاد پرست طبقہ، یہ حکمرانوں کے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں، جس طرح شاہ چاہے، یہ اس کی وفاداری میں دین و شریعت کو بھي اسی انداز سے دکھانا شروع کردیتے ہیں۔
حکمران طبقے کے متعلق لکھتے ہیں، ان کی اکثریت بھی علما سے رہنمائی لینے کی ضرورت نہیں سمجھتی.
رسالے کا مقصد اور لب لباب یہی ہے کہ اہل حق علما کو حسب توفیق اور موقعہ بہ موقعہ حکمران طبقہ کی اصلاح کرتے رہنا چاہیے، اور حکمرانوں کو بھی کاسہ لیسوں کی بجائے، ایسے مخلص علما پر توجہ دینی چاہیے۔
علما کو خطاب، حکمرانوں کو خطاب،کتابچہ ان دو حصوں پر مشتمل ہے۔
پہلے حصے کے شروع میں کچھ مرفوع احادیث اور سلف کے آثار ذکر کیے ہیں، جن کا مفہوم یہ ہے کہ امراء و سلاطین سے دور رہنا چاہیے۔
مصنف اس کا جواب یوں دیتے ہیں، کہ مرفوع احادیث تو ثابت ہی نہیں ہیں، اور سلف کے جو آثار ہیں، اس کراہت کا سبب یہ ہے کہ عموما لوگ سلاطین کے پاس جاکر فتنے کا شکار ہوجاتے ہیں.
پھر فرماتے ہیں، صحیح بات یہ ہے کہ اس معاملے میں تفصیل کرنی چاہیے ، اس سلسلے میں حکمرانوں کی تین اقسام ہیں:
1) جو اہل علم و تقوی ہیں، اور اہل علم کی قدر کرتے ہیں، امورِ حکم و سیاست میں شرعی رہنمائی کے طالب رہتے ہیں، اہل علم کا ان کے پاس آنا جانا واجب ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سید السلاطین تھے،اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما جیسے صحابہ کرام اکثر اوقات آپ کے ساتھ رہتے تھے. اسی طرح نیک حکمرانوں میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی مثال بھی پیش کی.
2) وہ حکمران جو نیکیوں بدیوں کا مجموعہ ہیں، اچھے برے دونوں قسم کے کام کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو موقعہ بہ موقعہ حکمت کے ساتھ نصیحت کرنی چاہیے.
3) وہ حکمران ، جن کے نزدیک علما کی کوئی حیثیت نہیں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والوں کو نہ صرف وہ ناپسند کرتے ہیں، بلکہ ایسی جرات کرنے والے کو قتل تک کردیتے ہیں، تو ایسے لوگوں کے پاس جانے کا کوئی فائدہ نہیں، ’ جان کی امان پاؤں‘ جیسے سابقے لاحقے لگا کر اگر کوئی نصیحت کرنے کا موقعہ مل جائے، تو کرلینی چاہیے، ورنہ اپنے آپ کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہیے، إلا کہ کسی عالم دین کی اذیت و مشقت یا اس کی جان کی قربانی دین اسلام کی سربلندی کا ذریعہ بنے، تو پھر یہ اقدام کرلینا چاہیے۔
افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر( صحیح ، مسند احمد وغیرہ) والی حدیث کو انہوں نے اسی ضمن میں ذکر کیا ہے۔​
حکمران اور سلاطین کو نصیحت کے آداب:
1۔ اگر فائدہ محسوس ہو تو جان کی بازی لگادینا جائز تو ہے، لیکن پھر بھی نرمی اختیار کرنا بہتر ہے۔ کہتے ہیں، سختی کرنے سے فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ بڑے لوگ مزید ضد میں آجاتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے ساتھ نرم رویے میں بات کرنے کی تلقین کی تھی۔
2۔ حکمرانوں کو نصیحت کرتے ہوئے، ان کے منصب کے فضائل و مناقب بھی بیان کرنے چاہییں کہ امارت و حکومت بہت بڑا شرف اور اللہ کا فضل ہے. وغیرہ
3۔ رعایا کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و انصاف کی فضیلت و فوائد بیان کیے جائیں۔
4۔ حکمرانوں کو نصیحت خلوت میں کرنی چاہیے، دیگر لوگوں کے سامنے سمجھانے سے حکمران و سلاطین اسے اپنی توہین اور سبکی سمجھتے ہیں۔
5۔ صریح گفتگو کی بجائے، اشارے کنائے پر اکتفا کرنا چاہیے۔ تقریر پر تحریر کو ترجیح دینی چاہیے۔​
حکمرانوں کے پاس آنے جانے کا حکم:
اگر نصیحت اور اصلاح مراد ہو، تو مذکورہ تفصیل کے مطابق ان کے پاس جانا چاہیے… لیکن جس کے بارے خدشہ ہو کہ محلات و قصور میں خود خواہشات و فتور کا شکار ہوجائے گا، اسے ہرگز نہیں جانا چاہیے۔
یہاں انہوں نے ایسی مثالیں بھی پیش کیں، کہ لوگ اصلاح کی غرض سے سلاطین کے پاس گئے، لیکن وہاں خود جاکر دین و دنیا دونوں برباد کربیٹھے، بلکہ سلاطین نے انہیں ملذات و ملہیات میں مبتلا کرکے علی رؤس الاشہاد ذلیل و رسوا کر نے کے بعد آخر میں سرتن سے جدا کروا دیا۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی نیت ابتدا میں درست ہوتی ہے، لیکن جب آہستہ آہستہ شاہی سہولیات کا رسیا ہوجاتا ہے، تو پھر حق بیان کرنے میں تساہل آنا شروع ہوجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ کئی علما امراء و سلاطین کے پاس جانا دور کی بات، ان کے تحفے تحائف تک وصول نہیں کرتے تھے، تاکہ ان سے کچھ ملنے کا لالچ، حق بیان کرنے میں رکاوٹ نہ بن جائے.
بعض علما نے کہا، مجھے سلاطین کی ’سزا‘ سے نہیں، بلکہ ان کی ’ تکریم‘ سے ڈر لگتا ہے۔
امام احمد بن حنبل کہا کرتے تھے، متوکل میرے لیے معتصم سے بھی بڑا فتنہ ہے۔
آخر میں فرماتے ہیں، حکمران طبقے کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اصل چیز دین کی معرفت اور اس کا نفاذ ہے۔
علما معرفت دین میں مدد کرتے ہیں، جبکہ سلطان کا منصب اس کے نفاذ کی راہ ہموار کرنا ہے، نہ کہ اہل علم کو چھوڑ کر اپنی طرف سے شریعت سازی کرنا ہے۔
خلفائے راشدین اور عمر بن عبد العزیز جیسے نیک اور صالح حکمران ہمارے حکمرانوں کے لیے رول ماڈل اور نمونہ ہونا چاہییں. جو اپنی رعایا سے ہر اصلاح اور نصیحت کو کھلے دل سے قبول کیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن الجوزی کا یہ کتابچہ آج سے آٹھ صدیاں قبل کے حالات و ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا گیاہے، ضرورت ہے کہ اسی رسالے کے پیغام کو مد نظر رکھتے ہوئے ’ علماو حکمرانوں کےمابین تعلقات‘ کی نوعیت پر تفصیل سے لکھا جائے، اور ہر دو طرف حتی الامکان اصلاح کی کوشش کی جائے۔
عالم اسلام کو اس وقت جو مسائل اور پریشانیاں درپیش ہیں، اس صورت حال میں ہمارے علما اور حکمران ہر دو طبقوں پر عالم کفر کی بھی نظریں ہیں.
چند صدیاں قبل یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ کوئی عالم دین یا سلطنت کا والی کافروں کا آلہ کار ہوگا. لیکن اس وقت یہ مثالیں بالکل عام اور سب کے سامنے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں کتاب وسنت اور منہج سلف کے متعلق اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کرنے کی توفیق دے، اور صرف دفاع پر اکتفا کی بجائے، اقدام کی ہمت و جرات بھی عطا فرمائے۔​