بسم الله والصلاة والسلام على رسول الله ﷺ..!!!

کسی غیر مسلم (چاہے اہلِ کتاب، یہود و نصاریٰ میں سے ہو) جس کی عبادت اللہ تعالی کے ساتھ شرک پر مشتمل ہو اسے مسجد میں عبادت کی دعوت دینا قرآن مجید کے واضح حکم کے خلاف ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں :

﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا﴾.

’’اور یہ مسجدیں صرف اللہ ہی کے لئے خاص ہیں لہذا اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔‘‘ (سورہ الجن : ١٨)
⇚امام قتادہ بن دعامہ تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

«كَانَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى إِذَا دَخَلُوا كَنَائِسَهُمْ وَبِيَعَهُمْ أَشْرَكُوا بِاللَّهِ، فَأَمَرَ اللَّهُ نَبِيَّهُ أَنْ يَخْلِصَ لَهُ الدَّعْوَةَ إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ».

’’یہود و نصاریٰ جب اپنے کنائس و عبادت گاہوں میں جاتے تو اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرتے لہذا اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا کہ وہ جب کسی بھی مسجد میں جائیں تو خالص اللہ تعالی کو پکاریں۔‘‘ (تفسیر عبد الرزاق : ٣/ ٣٥٤، جامع البيان للطبري : ٢٣/ ٣٤١ وسنده صحیح)
⇚حافظ قرطبی رحمہ اللہ نے اس قول کو امام مجاہد تابعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔ (الجامع لأحكام القرآن : ١٩/ ٢٢)
⇚امام ابن جریج رحمہ اللہ سے مروی ہے :

إنّ اليهود والنصارى إذا دَخلوا بِيَعهم وكنائسهم أشركوا بربّهم، فأمَرهم أن يُوَحِّدوه.

’’یہود و نصاریٰ جب اپنے کلیساؤں اور معبد خانوں میں جاتے تو اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے تھے تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اللہ تعالی کی وحدانیت پر کاربند رہیں۔‘‘ (ذكره السيوطي وعزاه إلى تفسير ابن المنذر)
⇚حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (٧٧٥هـ) ایک ہی علاقے میں مساجد و کلیساؤں کی موجودگی پر سلف کے اقوال ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

فالجمع بين فعل الصلاة التي وضعت لأجلها المساجد، بين الكفر المفعول في الكنائس في بقعة واحدة أولى بالنهي عنه، فكما أنهم لا يُمكّنون من فعل عباداتهم في المساجد ، فكذا لا ينبغي للمسلمين أن يصلوا صلواتهم في معابد الكفار التي هي موضع كفرهم .

’’نماز کہ جس کے لیے مساجد بنائی گئی ہیں اس کی ادائیگی اور کلیساؤں (چرچوں) میں کیا جانے والا کٗفـر ایک ہی جگہ جمع کر دینا ممنوع ہونے کے زیادہ لائق ہے لہذا جس طرح کفار کو اپنی عبادات مساجد میں ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اس طرح مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ کفار کے عبادت خانوں میں جو کہ کفر کا گڑھ ہیں وہاں اپنی نماز نہ ادا کریں۔‘‘ (فتح الباري لابن رجب : ٣/ ٢٤٣)
⇚سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نصاریٰ (عیسائیوں) سے معاہدہ کرتے وقت جو شرائط رکھی تھیں، ان میں سختی کے ساتھ تنبیہ تھی کہ وہ اپنی عبادت کو چھپا کر رکھیں گے، چنانچہ اس میں شرط تھی:

أَنْ لا نَضْرِبَ نَوَاقِيسَنَا إِلا ضَرْبًا خَفِيفًا فِي جَوْفِ كَنَائِسِنَا، وَلا نُظْهِرَ عَلَيْهَا صَلِيبَنَا، وَلا نَرْفَعَ أَصْوَاتَنَا فِي الصَّلاةِ، وَلا الْقِرَاءَةِ فِي كَنَائِسِنَا فِيمَا يَحْضُرُهُ الْمُسْلِمُونَ، وَأَنْ لا نُخْرِجَ صَلِيبَنَا وَلا كِتَابَنَا فِي سُوقِ الْمُسْلِمِينَ.

’’ہم اپنے ناقوس پست وہلکی آواز میں اپنے کلیساؤں کے اندرونی حصے میں ماریں گے، اپنی صلیب ظاہر نہیں کریں گے، مسلمانوں کی موجودگی میں اپنے چرچ میں بھی اپنی عبادت وقراءت کی آواز بلند نہیں کریں گے، اپنی صلیب اور کتاب مسلمانوں کے بازار میں نہیں لائیں گے۔‘‘

(أحكام أهل الذمة والردة للخلال: ١٠٠٠، معجم ابن الأعرابي : ٣٦٥، السنن الكبرى للبيهقي : ٩/ ٣٣٩)
ان شرائط پر علمائے امت کا اجماع ہے جیسا کہ حافظ ابن حزم (٤٥٦هـ) اور امام ابن تیمیہ (٧٢٨هـ) نے نقل کیا ہے ۔(مراتب الإجماع : ١١٥، إقتضاء الصراط المستقيم : ١/ ٣٦٣)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس معاہدے اور اس پر مسلمانوں کے اجماع سے معلوم ہوا کہ یہود وعیسائی اپنی عبادت مسلمان ریاست میں چھپ کر صرف اپنی عبادت گاہوں میں کریں گے چہ جائیکہ انہیں باقاعدہ مساجد میں اپنی باطل وشرکیہ عبادت کو سرانجام دینے کے باقاعدہ مواقع فراہم کیے جائیں۔
⇚اس سلسلے میں جو قصہ پیش کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نجران کے نصاری کے وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی تھی، وہ کتبِ احادیث میں کہیں نہیں، بلکہ بعض مؤرخین و مفسرین نے معضل ومنقطع اسانید کے ساتھ بیان کیا ہے۔ صریح نص قرآنی کے خلاف ایسی بے جان، ضعیف و غیر ثابت روایات کو بنیاد بنانا درست نہیں ۔
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ اس قصے کے متعلق فرماتے ہیں :

هذا منقطع ضعيف ، لا يحتج بمثله .

’’یہ ضعيف ومنقطع ہے، اس جیسی روایت کو دلیل نہیں بنایا جاتا۔‘‘ (فتح الباري : ٣/ ٢٤٤)
بالخصوص برصغیر میں اہل حدیث کے ہاں اگر کوئی روایت کتب احادیث میں بھی ہو لیکن اس کی سند ضعیف ہو تو وہ قابلِ عمل نہیں رہتی چہ جائیکہ ایک روایت جس کا کتب احادیث میں وجود نہیں محض سیرت و تاريخ کی بات ہے، پھر یہ کہ وہ قرآنی آیت کے خلاف ہے، پھر مزید یہ کہ وہ صحیح احادیث جن میں عیسی علیہ السلام کے صلیب توڑنے کا ذکر ہے ۔ (مسند أحمد، مؤسسة الرسالة: ١٢/ ١٢٠ وغيرها) اس کے خلاف ہے کہ انہیں اپنی صلیب مساجد میں لا کر عبادت کی دعوت دی جا رہی ہے۔
یہاں منکرینِ حدیث کے تمام گروہوں کے لیے بھی قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان کے ہاں صحیحین کی مستند ترین احادیث بھی قرآن کے خلاف نظر آنے پر رد اور نا قابلِ عمل قرار پاتی ہیں جبکہ یہاں واضح قرآنی آیت کے خلاف ایک خبر واحد جو کہ تاریخی بات ہے منقطع و معضل سند سے ہے وہ بھی بڑے شوق سے مذہبی رواداری کے نام پر پیش کر رہے ہیں ۔
⇚تنبیہ :
اگر کسی مسلم ریاست میں غیر مسلم شہریوں کے ساتھ ظلم وزیادتی ہو تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کا ازالہ کرے، ان کے ساتھ بطورِ شہری تعاون کرے، ان کے لیے متبادل انتظامات کرے، لیکن مسلمانوں کا اپنی مساجد جو کہ توحید و سنت کا مینار ہیں انہیں غیر مسلموں کی مشرکانہ عبادت کے لیے کھول دینا ہرگز جائز نہیں، بعض اہل علم کا خیال ہے کہ موجودہ دور میں جب مسلمانوں کے متعلق برے خیالات اور اسلام کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے تو تالیف قلب اور اسلام کا اچھا چہرہ پیش کرنے کے لیے اس کی کوئی گنجائش نکالنی چاہیے حالانکہ موجودہ دور میں جب کہ ملحدین و سیکولر لوگوں کی طرف سے بیت ابراہیمی کی دعوت دے کر اسلام اور یہودیت و عیسائیت کو ملا کر ایک ہی جگہ عبادت خانے بنائے جانے کا رواج زور پکڑ رہا ہے اس صورت حال میں زیادہ شدت کے ساتھ ایسے اقدام کی نفی ہونی چاہیے وگرنہ یہ مستقبل میں مداہنت و یکجہتی کا ایک خطرناک دروازہ کھول دے گا ۔ والله أعلم.

حافظ محمد طاھر