پہلے یہ پوسٹ ملاحظہ کریں:


فنِ حدیث سازی پر ایک چھچھلتی نظر….
میں ذاتی طور پر دو ایک دوستوں کو جانتا ہوں جو اپنے اقوال حضرت علی سے منسوب کر کے مشہور کر رہے ہیں۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں ایک شخض پکڑا گیا جو جھوٹی حدیثیں بنا بنا کر پھیلا رہا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز نے طلب کرکے دریافت کہ کیا یہ حدیث تم نے گھڑی ہے۔ اس نے اعتراف کیا کہ جی ہاں میں نے ہی بنائی ہے۔ آپ نے ایک دو مزید جملے ادا کیے اور پوچھا کہ یہ “حدیث” بھی تم نے بنائی ہے؟ اس نے اس کا بھی اعتراف کرلیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ایک رقیق القلب انسان تھے۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انھوں نے اُسے مخاطب کر کے کہا کہ او دشمنِ خدا، تونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نہیں سنی کہ جس شخص نے کوئی جھوٹی بات مجھ سے منسوب کی اس کا ٹھکانہ جہنم ہے؟ اُس نے سر جھکاتے ہوئے عرض کیا کہ حضور یہ حدیث بھی میں نے ہی بنائی تھی۔
طبقاتِ اکبری جلد ہشتم، ملفوظات جلد چہار دہم صفحہ نمبر ٣٢٦
(رفیع رضا)


بالا پوسٹ کا مدعا یہ ہے کہ حدیث سازی کی ایک ایسی لہر تھی، جس میں جھوٹ سچ کی کوئی پہچان نہ رہی، بلکہ جنہیں لوگ بہت مستند احادیث سمجھتے تھے، وہ بھی اصل میں کسی کی گھڑی ہوئی تھیں۔
ہماری گزارش یہ ہے کہ حدیث گھڑنے کی باقاعدہ ایک تحریک موجود تھی، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن اس کے بالمقابل حفاظت و صیانت حدیث کی تحریک بھی پورے شد و مد سے موجود تھی، اصول حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔
غلط کیا ہے، صحیح کیاہے؟ علماء و محدثین نے بحکم قرآنی ’إن جاءکم فاسق بنبأ فتبینوا‘ کے مصداق اسانید اور ان کی تحقیق کا ایک بہترین سسٹم متعارف کروایا۔
جس کی مدد سے یہ معلوم کیا جاسکتا تھا کہ مستند بات کیا ہے ؟ اور جھوٹ کا پلندہ کیا ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہےکہ آج کیا اپنےکیا پرائے، دوستوں دشمنوں کی ایک کثیر تعداد ’ تحقیق حدیث ‘ کے اس بہترین اور عالی شان نظام سے واقف نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جہالت کی بنا پر اعتراض کیے بھی جاتے ہیں، اور لاعلمی کی وجہ سے بہت سارے لوگ ان شبہات میں پھنس بھی جاتے ہیں۔
اوپر پوسٹ میں بڑی مہارت کے ساتھ ’ من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار‘ والی حدیث کو ایک من گھڑت حدیث ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی گئی ہے۔
حالانکہ یہ حدیث فرد واحد سے مروی نہیں، کہ جس نے اس کے جھوٹا ہونے کا اعتراف کرلیا تو بات ختم ہوئی۔
یہ حدیث متواتر ہے، یعنی ایک کثیر تعداد نے اسے روایت کیا ہے، اور ايسي كثير تعداد جن کے بارے میں یہ الزام بھی ممکن نہیں کہ ایک جگہ پر بیٹھ کر انہوں نے ’ ایکا‘ کرلیا ہوگا۔ محدثین نے اس روایت کی اسانید اور طرق پرمستقل تصانیف مرتب فرمائی ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق یہ روایت تقریبا 60 صحابہ کرام سے مروی ہے، اور تقریبا 170 اس کی اسانید اور طرق ہیں۔
جس بندے میں عقل کا ذرہ بھی ہے ، وہ کیسےمان سکتا ہے کہ تواترکے درجے کو پہنچی ہوئی یہ روایت کسی جھوٹے کی کارستانی ہے ؟
اور اگر کوئی اس قسم کا یہ دعوی کردے تو کسی جھوٹے کے اس دعوے کو تسلیم کرنے والے کوبھی اپنی دماغی صلاحیت کو بحال کرنے کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے۔
جھوٹ دو طرح کا ہے: کہ کوئی من گھڑت بات کو صحیح کہہ کر مشہور کردے، دوسرا کوئی صحیح بات کےبارے میں ایسا پراپیگںڈہ کرے کہ لوگ اسے غلط سمجھنا شروع ہوجائیں، یا کم از کم شک میں مبتلا ہوجائیں۔
احادیث کے حوالے سے دشمنان دین نے دونوں قسم کی کوششیں کی ہیں، اور محدثین نے الحمدللہ دونوں قسم کے حملوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔
تاریخ میں ایسے واقعات موجود ہیں، کہ جب احادیث گھڑنے والے پکڑے گئے ، تو انہوں نے اس قسم کی باتیں کرنا شروع کردیں کہ تم نے ہمیں تو پکڑ لیا، لیکن جو احادیث ہم نے لوگوں میں پھیلادی ہیں، ان کا کیا کرو گے؟
تو اس کا جواب دیا گیا کہ اگر مرتے وقت بھی تم جھوٹ نہیں بول رہے تو: تعیش لہا الجہابذۃ !
ہمارے پاس ایسےلوگ موجود ہیں جو کھوٹے کھرے کی پہچان میں مہارت تامہ رکھتے ہیں۔
مارکیٹ میں جتنا مرضی نقلی اور ملاوٹ والا سونا یا جعلی نوٹ متعارف کروا دیے جائیں، ایک ماہر سنار یا جوہری کے لیے صحیح غلط کی پہچان چنداں مشکل نہیں۔
نوٹ: بالا تحریر میں جو حوالے دیے گئے ہیں، نا مکمل اور مبہم ہونےکیوجہ سے میں نے انہیں تلاش کرنے میں وقت ضائع نہیں کیا، اگر کوئی صاحب ان حوالوں کا سکرین شارٹ مہیا کردیں، تو ان کی حقیقت بھي واضح کردی جائے گی۔ ورنہ مجھے یہ بھی خدشہ ہے کہ یہ کہانی کسی نے اپنی طرف سے اس طرح بنا کر مشہور کردی ہے تاکہ ذخیرہ احادیث کے متعلق لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجائیں۔​