بچپن میں ہماری داستان سفر رائیونڈ، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور فیصل آباد تک محدود رہی ، مدرسہ میں داخلہ ہوا، تو لاہور آنا جانا بھی بہ کثرت ہوگیا، ان سب میں سفر کی نوعیت تقریبا ملتی جلتی ہے،عموما لوکل ٹرانسپورٹ پر ہی سفر کیا، مجھے نہیں یاد کہ ہم نے کبھی آنے جانے کےلیے ٹیکسی وغیرہ کا سہارا لیا ہو۔
اکثر کوسٹر، بڑی بس، ہائی ایس اور کافی دفعہ ٹرین کے ذریعے ہم گوجرانوالہ یا فیصل آباد جایا کرتے تھے۔
اس میں مزیدار سفر ٹرین والا ہی کہا جاسکتا ہے، باقی میں تو ہر دفعہ منتظر ہوتے کہ کب سٹاپ آئے اور جان چھوٹے ۔ بہت دفعہ بس یا ہائی ایس کے سفری ماحول کی وجہ سے خوب ابکائیاں بھی کیا کرتے تھے۔ امی ابو کا یہ احسان تھا کہ گاڑی میں بچہ کہہ کر ادھر ادھر دھکیلنے کی بجائے مستقل سیٹ لے دیتے تھے، بلکہ بیٹھنے سے پہلے ہی بس والے سے بات کرتے کہ ہمیں شیشے کی طرف سیٹ ملی تو بیٹھیں گے، ورنہ نہیں۔
اب اے سی بس کا سفر آرام دہ لگتا ہے، لیکن اس وقت ہمیں زہر لگتا تھا، کیونکہ اے سی بس کے شیشے نہیں کھلتے، مجھے یاد ہے، ایک بار ہم گوجرانوالہ جانے کے لیے لاہور سے اسے سی کوسٹر میں بیٹھ گئے، وہاں پہنچتے پہنچتے ڈیڑھ دو گھنٹے میں جو کچھ پیٹ میں تھا، منہ کے ذریعے اپنی اور امی ابو کی جھولیوں میں پچھا دیا گیا تھا۔
خیر یہ سب باتیں بالکل بچپن کی ہیں، جب میں ذرا بڑا ہوا، مدرسہ کے لیے لاہور بہ کثرت آنا جانا شروع کردیا، تو سفر کی عادت سی ہوگئ ، اس لیے طبیعت خراب نہیں ہوتی تھی۔
لاہور یا گوجرنوالہ سے فیصل آباد ، جھنگ ، لیہ جانے والی بڑی بڑی نان اے سی گاڑیوں میں سفر بھی ایک مکمل ’ فن‘ ہے، ایک تو ان کا کرایہ کم ہوتا ہے، دوسرا یہ کوسٹر اور ہائی ایس وغیرہ کے مقابلے میں کشادہ ہوتی ہیں۔ تیسرا اگر کوئی اچھا ٹائم مل جائے تو پہنچا بھی جلدی دیتے ہیں، میں اکیلا ہوں، اور سفر سو ڈیڑھ سو کلو میٹر کی حدود میں ہو انہیں پر جانے کو ترجیح دیتا ہوں۔
ٹویوٹا وغیرہ کا سفر تو اب اس قسم کا ہوگیا ہے کہ نری قید با مشقت ہے،جو آپ کرایہ دے کر اپنے لیے خریدتے ہیں، جہاں بارہ چودہ سواریاں بھی تنگ ہو کر بیٹھتی ہوں، وہاں آپ بیس بائیس بٹھانے کا انتظام کرلیں، تو اندازہ کیجیے، کیا حال ہوگا۔
فیصل آباد سے آگے جھنگ روڈ پر نواں لاہور ایک سٹاپ ہے، چھوٹی خالہ کو ملنے جانا تھا، ابو جی کہنے لگے، ٹویوٹا میں بیٹھ جاؤ، جلدی پہنچا دیتے ہیں، سب سے پیچھے بیٹھ گیا، مجھ سے پہلے ایک اور پتلے سے صاحب بیٹھے تھے، تھوڑی دیر بعد ایک میاں بیوی آئے، جو مجھ سے بھی تھوڑے وسیع تھے، بیٹھنا چاہ رہے تھے ، بیٹھا نہیں جارہا تھا، ضرب تقسیم لگا کر بیٹھ تو گئے، لیکن سارا سفر ایسا محسوس ہوا، یہ مرضی سے بیٹھنے والے انسان نہیں، بلکہ جمادات ہیں، جنہیں مہارت کے ساتھ گاڑی پر لوڈ کردیا گیا ہے۔ بس ادھر ادھر دیکھنے اور نیچے سے تھوڑا بہت پاؤں آگے پیچھے کرنے کا آپشن موجود تھا۔
فیصل آباد سے آگے جھنگ کے لیے بیٹھے، تو وہاں سیٹوں کی ٹیکیں خراب تھیں، ایک بار پھنس کے بیٹھ گئے، جب آگے والوں نے ٹیگ لگائی تو ٹانگیں ہلانے کا آپشن بھی ختم ہوا،ساتھ ایک کالج کا جوان بیٹھا ہوا تھا، جب ہم کرایہ کے لیے پیسے نکالنے لگے، تو ہلنے جلنے میں اس قدر مشقت ہوئی کہ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا،’ قید بامشقت‘ مطلب جسے گاڑی سمجھ کر بیٹھے تھے، حقیقت میں قید بامشقت ثابت ہوئی۔
واپسی پر فیصل آباد جی ٹی ایکس اڈے پر اتارا گیا، وہاں سے رکشہ کے ذریعے لاری اڈے آیا، تاکہ ہائی ایسے کا شکار ہونے کی بجائے بڑی بس کے ذریعے شیخوپورہ جاسکوں۔
لاری اڈوں کا کلچر تقریبا ایک جیسا ہی ہے، وہ گاڑی جو اسٹارٹ ہوتی ہے، بلکہ بعض دفعہ یوں محسوس ہورہا ہوتا ہے، ابھی چلنے والی ہے، حقیقت میں ا س نے گھنٹے بعد جانا ہوتا ہے، اور جو اس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر نظر آرہے ہوتے ہیں، وہ حقیقت میں سواریاں پھانسنے والے مزدور ہوتے ہیں، جو ہر گاڑی کو سیٹر کرنے کی مزدوری لیتے ہیں، یہ بعض دفعہ اتنا الحاح و اصرار کرتے ہیں کہ انسان کا خود کو ان سے چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے، میں اس صورت حال سے بچنے کے لیے لاری اڈے میں اندر جانے کی بجائے،اس کے دروازے پر ہی کھڑا ہوگیا، تاکہ جو کوئی گاڑی باہر کی طرف آئے گی، اس میں بیٹھ جاؤں گا۔ ابھی یہ سوچ ہی رہاتھا، ایک بندہ آیا کہتا، کہاں جانا ہے، میں نے کہا، شیخوپورہ، ساتھ ہی ایک اور بھی سن رہا تھا، دونوں نے میرا ایک ایک ہاتھ پکڑ لیا، وہ کہے میری گاڑی میں، دوسرا کہے ، نہیں ہم نے پہلے جانا ہے، میں نے کہا، ایسے کرو آپ مجھے آدھا آدھا کرلو، تاکہ دونوں طرف سوار ہوسکوں، ایک جس کی گاڑی ذرا دور تھی، نے تھوڑا شرمندہ ہو کر چھوڑ دیا۔
یہ ’شبیر بردارز‘ کی بس تھی، جس نے لاہور براستہ شیخوپورہ جانا تھا، صبح صبح کا وقت تھا، نعتیں لگی ہوئی تھیں، تھوڑی دیر بعد قوالی شروع ہوئی، جب ہم فیصل آباد سے باہر نکلے ، سورج کی حرارت نے ڈرائیور کو اشارہ دیا کہ اب صبح سویرا ختم ہوچکاہے، اور ’ گانے بجانے‘ کا ٹائم ہوا چاہتا ہے۔ یہ ان کی سادگی سمجھیے یا نادانی، کہ یہ قوالی کے نام پر ڈھول ڈھمکے کو گانا بجانا ہی نہیں سمجھتے۔
دنیا جہان کی تمام بیماریوں کا علاج لے کر آنے والے حکیم، اللہ رسول اور مدرسے کے نام پر مانگنے والے سفیر اور بیوائیں ، یہ بھی اس بس کلچر کا بنیادی حصہ ہیں، ان لوگوں کا بس والوں کے ساتھ اتنا ’ منہ ویار‘ ہوتا ہے کہ انہیں نہ صرف بس میں تقریر کا موقعہ دیا جاتا ہے، بلکہ ان کی گزارش پر بس میں چلنے والا ’کنجر خانہ ‘بھی بند کردیا جاتا ہے۔
وہ کنجر خانہ، جو کسی ماں بہن کی عزت، یا کسی مولوی یا بزرگ کی شرافت کا خیال بھی نہیں کرتا۔ واللہ بہت حیرانی ہوتی ہے، بسوں میں عزیز و رشتہ دار ، مائیں بہنیں بیٹیاں، ہر قسم کے مرد و عورت سفر کر رہے ہوتے ہیں، اور سب ایک دوسرے کے پاس پاس اور بعض دفعہ جڑ جڑ کر بیٹھے ہوتے ہیں، اور سامنے ٹی وی سکرین پر مجرا یا کوئی حیاباختہ فلم چل رہی ہوتی ہے۔ جس میں مرد و عورت عجیب قسم کی حرکات کر رہے ہوتے ہیں، گانوں میں شرم و حیا سے عاری جملے بولے جارہے ہوتے ہیں، لیکن سب مست ہو کر بیٹھے ہوتے ہیں۔
کئی دفعہ بس میں جگہ کی تنگی کے سبب مرد و زن کا فحش قسم کا اختلاط بھی پیدا ہورہا ہوتا ہے۔ پردہ اور حجاب میں ملبوس خواتین پھر بھی کسی حد تک حشمت و وقار سے ہوتی ہیں، ننگے منہ نکال کر، گھٹیا قسم کے فیشن کرکے آنے والی خواتین پتہ نہیں کس کے لیے یہ سب کچھ کرکے آئی ہوتی ہیں؟!
ویسے ڈائیو اور ا س سے ملتی جلتی بس سروسز میں کم از کم اس قسم کی ہلڑ بازی نہیں ہوتی ، بلکہ اب ان بسوں میں سب کو ایک اسکرین دکھانے کی بجائے، ہر سیٹ میں الگ الگ اسکرین لگادی گئی ہے، تاکہ جس نے جو گند مارنا ہے، اپنی حد تک ہی رہے، دوسرے اس سے متاثر نہ ہوں۔ لیکن ان بسوں میں سفر کرنے والے پڑھے لکھے جاہل بھی بہت ہوتے ہیں، عجیب و غریب قسم کے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، میں نے ایک دفعہ بیگم کے ساتھ اسلام آباد کا سفر کیا، اسی بس میں یہ برگر پارٹی بھی سوار ہوگئی، رمضان کا مہینہ تھا، سارے راہ چرتے رہے، شکل و صورت اور ہیئت و حرکات بتارہی تھیں، غلطی سے ’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ جیسے ایک مشرقی ملک میں پیدا ہوگئے ہیں۔
اس قسم کی صورت حال دیکھ کر سب سے زیادہ محفوظ ذریعہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ کم ازکم فیملی سفر کے لیے اپنی ذاتی گاڑی ہونی چاہیے، ہمارے ہاں کا ٹرانسپورٹ کلچر اس لائق نہیں کہ اپنی بیوی، بہن یا بیٹی کے ساتھ اس میں سفر کیا جاسکے۔
خیر اب آپ فیصل آباد سے چلنے والی ’ شبیر بردارز‘ کی بس کی طرف آجائیے، ایسی بسوں کی کج رفتاری پر یہ شعر صادق آتا ہے:
جو ٹھہرے تو کوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جہاں بھی پار کر گئے
انہوں نے نہ چلنا ہو تو لمبے لمبے سٹاپ اور حرکت مثل چیونٹی، اور جب پیچھے سے کوئی بس آنے کا کاشن مل جائے تو یوں گویا ہوائی جہاز ہے، جو غلطی سے فضا سے سڑک پر آگیا، اور اب دوبارہ تیز رفتار ہو کر اڑنے کی کوشش کر رہا ہے ۔
مظفر آباد کی پہاڑیوں پر جیپوں کے ڈرائیور نہ دیکھے ہوتے ، تو میں ان بس ڈرائیوز کو دنیا کا نمبر ون ڈرائیور کہتا، اللہ کی مرضی ہے کہ انسان چاہے ڈرائیور ہو یا کوئی اور، ہاتھ اس کے دو ہی ہوتے ہیں، لیکن ان ڈرائیورز نے ان دو ہاتھوں کے ساتھ بیک وقت چار چار کام کرنے ہوتے ہیں، سٹیرنگ سنبھالنا، ہارن بجانا، گیئر تبدیل کرنا، سگریٹ نوشی یا کھانے پینے کا کوئی شغل ، اور ساتھ وقت فوقتا موبائل بھی دیکھنا، یہ سب کام انہوں نے صرف دو ہاتھوں سے ہی لینے ہوتے ہیں۔ پاؤں، کلچ بریک اور ریس میں مصروف ہوتے ہیں، جبکہ منہ اسی تیز رفتاری سے یا تو کنڈیکٹر کو گالیاں دینے، یا پھر رستہ نہ دینے والی گاڑیوں کو کوسنے میں مصروف ہوتا ہے، ساتھ ساتھ اگر کوئی سواری بالخصوص اترنے میں دیر کرے، تو اسے دو چار مغلظات سے نوازنا بھی یہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔
اوور ٹیکنگ اور کٹ ایسی مارتے ہیں ، کہ ہلکے دل والوں کا ’تراہ‘ اور ہلکے جوڑوں والوں کا کچھ بھی نکل سکتا ہے۔
بالخصوص کاریں وغیرہ رستہ نہ دے رہی ہوں، تو ہارن اتنا تیز مارتے ہیں، گاڑی اتنی اوپڑ چڑھاتے ہیں کہ کمزور اعصاب کا ڈرائیور ہواس باختہ ہوسکتا ہے ۔
اپنے جیسی کسی بس کے ساتھ ان کا ٹاکرا لگ جائے، تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بس ایکسیڈنٹ اب ہوا کہ اب ہوا۔ بعض ڈرائیور زچ ہو کر پچھلی بس کو رستہ نہیں دیتے، اب پچھلے کا جی چاہ رہا ہوتا ہے، یا تو میں فٹ پاتھ پر چڑھ جاؤں ، یا پھر سٹرک سے نیچے اتار کر اس سے آگے نکل جاؤں۔ ہیلی کاپٹرز وغیرہ گشت پر ہوں تو وہ آپس میں وائرلیس سسٹم کے ذریعے گپ شپ کر رہے ہوتے ہیں، لیکن یہ بس ڈرائیورز اس سب کے بغیر ایک دوسرے تک اپنا پیغام کامیابی سے نقل کرتے ہیں۔
میں شیخوپورہ سے گوجرانوالہ کے لیے راجہ بس سروس پر سوا ر ہوا، ڈرائیور مولوی صاحب تھے، بڑے آرام اور تحمل سے گاڑی چلاتے رہے، ساتھ انہوں نے غالبا مولوی شفیع اوکاڑوی یا ان کے بیٹے کی مسئلہ علم غیب پر تقریر لگائی تھی۔ مرید کے پہنچے، سواریاں اترنا شروع ہوئیں، چڑھنے والی انتظار کر رہی تھیں، تحمل اور آرام کا یہ سماں اس وجہ سے تھا کہ پیچھے سے مزید گاڑی آنے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ لیکن پیچھے والے بھی کھلاڑی تھے، اچانک پتہ نہیں کہاں سے آ دھمکے، ڈرائیور کا اس گاڑی کو دیکھنا تھا کہ نکلنے کی کوشش کی، لیکن وہ پہلے ہی نکل چکے تھے، اب ڈرائیور صاحب مسلسل گالی گلوچ اور ہارن پر ہارن بجا رہے تھے، ایک بیچاری خاتون کے دو چار بچے ساتھ تھے، ظاہر ہے وہ کوئی شاپر یا بوری نہیں تھی ، جنہیں دور سے ہی باہر اچھال دیا جاتا، اسے بچوں کے فکر کی وجہ سے اترنے میں دیر ہوئی، نتیجتا ڈرائیور صاحب نے مذکورہ عورت کو خاندانی منصوبہ بندی پر ایک مختصر مگر جامع لیکچر ’نکال‘ دیا۔
گوجرانوالہ کھیالی بائی پاس سے شیخوپورہ کو ایک سنگل سڑک جاتی ہے، جس میں صحیح سلامت سڑک کی بجائے ٹوٹی ہوئی زیادہ ہے، یعنی بقول بعض کھڈوں میں کہیں کہیں سڑک بھی نظر آجاتی ہے۔
سیالکوٹ ڈسکہ سے براستہ شیخوپورہ فیصل آباد جانے والی بسیں رات کو اس سڑک سے جاتی ہیں، میں اس کے انتظار میں کھڑا تھا، کافی دیر بعد بس آئی ، لوگ ٹوٹ کر اس کی طرف دوڑے، انہوں نے صاف اعلان کردیا، جنہوں نے شیخوپورہ یا اس سے پہلے کہیں رستے میں اترنا ہے، وہ گاڑی کے اندر آنے کا تکلف نہ کریں، جانا چاہتے ہوں، تو چھت پر چڑھ جائیں، میں نے سوچا، چلو آج جہاز کی چھت کے سفر کا بھی مزہ لے لیتے ہیں، لیکن تھوڑا اوپر ہو کر دیکھا ، پوری چھت سامان سے لدھی ہوئی تھی، لوگ درمیان میں چارپائیاں ، سائیکل ادھر ادھر کرکے بیٹھنے کی جگہ بنا رہے تھے۔ سوچا یہ واقعتا جہاز کی چھت ہے، جس پر سفر خود کشی کے مترادف ہے۔ میں نیچے اتر آیا، تھوڑی دیر بعد دیکھا ایک پانچ سات سال کا بچہ اوپر چڑھ رہا تھا، نیچے سے کوئی اسے سہارا دے رہا تھا، میں بے چین ہو کر بولا، کیوں بچے پر ظلم کر رہے ہو، اوپر سے گر جائے گا، کہنے لگا، اوپر اس کا والد ہے، اس کے کہنے پر ہی اسے اوپر چڑھا رہا ہوں!
خیر وہاں سیٹیں لینے دینے پر ایک عورت کنڈیکٹر کے ساتھ جگڑنا شروع ہوگئی، حالات کا جائزہ لیتے ہوئے، میں بھی بس میں گھس گیا ، سوچا، اگر اس نے پوچھا تو کہوں گا کہ فیصل آباد کا کرایہ لے لینا، لیکن اتار شیخوپورہ دینا۔
سفر کا تیسرا حصہ تقریبا کھڑے ہو کر طے کیا، جبکہ بقیہ دو تہائی ابھی رہتا تھا کہ سیٹ مل گئی، اس قدر بے احتیاطی اور تیز رفتاری، مجھے نیچے بیٹھے فکر لاحق ہورہی تھی کہ اوپر چھت والا سامان کیسے ٹکا ہوگا ، اور اس کے درمیان موجود لوگوں پر کیا گزر رہی ہو گی۔
سنا ہے عموما اس قسم کی بسوں کے ڈرائیو نشہ کرکے سٹیرنگ سنبھالتے ہیں، جنہیں صرف بس دوڑانے کا بھوت سوار ہوتا ہے، کوئی نیچے آگیا، پیچھے رہ گیا، گر گیا ، چڑھ گیا، اتر گیا، اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ بہرصورت پنجابی زبان کے مخصوص گیت ، جو ان بسوں میں لگائے گئے ہوتے ہیں، اس میں محبوب اور محبوبہ ایک دوسرے کے بارے میں جس قسم کے جذبات کا ظہار کر رہے ہوتے ہیں، وہ بذاتہ خود ایک نشہ ہے، اس لیے خال خال ہی کوئی ڈرائیور نظر آئے گا، جو گانے بجانے کا شوقین نہ ہو۔
ایک گزارش:
اس بس کلچر میں دعوت و تبلیغ کے نقطہ نظر سے دو باتیں میرے ذہن میں آرہی ہیں، بڑے بڑے اور مشہور اڈوں پر جانا چاہیے، جہاں بس سروسز کے مالکان اور ڈائیور حضرات بیٹھتے ہیں، وہاں سفر کے متعلق دینی رہنمائی دینے کی کوشش کی جائے، کیسٹیں، سی ڈی یز اور یو ایس بی ڈیوائسز فری میں تقسیم کی جائیں، جن میں قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر اسلامی مواد ہو، انہیں ترغیب دلائی جائے کہ ان آڈیوز کو جتنا ہوسکے، اپنی بس میں چلائیں۔ ڈائیو، فیصل مورز، بلال ٹریولز، سکائی ویز وغیرہ، بس سروسز کو بھی ان کے سسٹم کے مطابق اسلامی مواد مہیا کیا جائے۔ قرآن کریم کی تلاوت، ارکان ایمان و اسلام، غسل و طہارت ، نماز کا طریقہ، سفر کے متعلق اسلامی تعلیمات پر مشتمل آڈیوز ویڈیوز ان بس سروسز میں کم از کم موجود ہونی چاہییں، تاکہ تلاش کرتے ہوئے مسافر کے سامنے یہ چیزیں بھی آئیں، یقینا سب نہیں تو کئی لوگ اس سے رہنمائی لیں گے۔
لاہور میں دوران سفر جن چیزوں سے متاثر ہوا، وہ بعض جگہوں پر کشادہ اور صاف ستھری سڑکیں ہیں، فلائی اوورز، پلوں وغیرہ کی تعمیر سے ٹریفک میں بہت بہتری آگئی ہے، ہمارے ہاں رائیونڈ میں جب ریلوے پھاٹک بند ہوتا، تو گھنٹوں ٹریفک جام رہتی تھی، اب وہاں بہترین فلائی اوور بن گیاہے،
رائیونڈ سے لاہور بتی چوک کا سفر براستہ ٹھوکر کم از کم دو گھنٹے کا ہوتا تھا، اب ٹھوکر سے بھی پہلے ایک سڑک کے ذریعے رائیونڈ روڈ کو موٹروے سے ملادیا گیاہے، جس سے سفر کافی مختصر ہوگیا ہے۔
اسی طرح اوبر ، کریم وغیرہ ٹیکسی سروس کا عام ہونا بھی ایک بہترین سہولت ہے، جس سے سفر آرام دہ بھی ہوا ہے، اور پرامن بھی، البتہ اس کے مفاسد و نقصانات کم سے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
میٹرو بس سروس کئی سالوں سے جاری ہے، لیکن مجھے اس بار پہلی مرتبہ اس کے ذریعے سفر کا اتفاق ہوا، بہترین سہولت ہے، ٹائم اور کرایہ دونوں بچ جاتے ہیں، ٹکٹ لینے میں تھوڑی پرابلم ہوتی ہے، اگر مستقل سفر کرنا ہو تو کارڈ بنوا لینے سے یہ بھی مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔