تبرک کے متعلق عقیدہ اور چیلنج، پاکستان کی ٹالی اور طائف کے درخت​

’’میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تبرک کے متعلق تمہارا عقیدہ قرآن وسنت کے مطابق نہیں ، آکر مجھ سے مناظرہ کرلو ‘‘
یہ جلالی صاحب کا چینلج ہے ، اور یہ صرف چیلنج ہی ہے، مناظرہ کرنا ہوتا تو یقینا اب تک کر چکے ہوتے ۔
جلالی صاحب جن کو چیلنج دے رہے ہیں ، انہوں نے الحمد للہ دیگر عقائد و مسائل کی طرح تبرک کے متعلق بھی اپنے عقیدے کو قرآن و سنت اور سلف صالحین کے فہم کے مطابق تفصیل سے بیان کردیا ہوا ہے۔
یہاں میں اہل حدیث کے ایک شیخ محترم کی تحریر نقل کرتا ہوں:
تبرک کا معنٰی یہ ہے کہ اجر و ثواب اور دین و دنیا میں اضافے کے لیے کسی مبارک ذات یا وقت سے برکت حاصل کرنا۔
محققین علماء کے نزدیک تبرک کی دو قسمیں ہیں:
(1) مشروع تبرک: جسے اللہ و رسول نے جائز قرار دیا ہو۔
(2) ممنوع تبرک : جو جائز تبرک میں شامل نہ ہو یا شارع نے اس سے منع فرما دیا ہو۔
ممنوع تبرک
ممنوع تبرک شرک میں داخل ہے، اس کی دلیل یہ ہے :
سیدنا ابوواقد اللیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی طرف نکلے، اس وقت ہم نئے نئے مسلمان ہوئے تھے، ایک بیری تھی، جس کے پاس مشرکین ٹھہرتے اور (تبرک کی غرض سے ) اپنا اسلحہ اس کے ساتھ لٹکاتے، اسے ” ذات انواط“ کہا: جاتا تھا، ہم نے عرض کی، اے اللہ کے رسول ! جس طرح مشرکین کا ”ذات انواط“ ہے، ہمارے لیے بھی کوئی ذات انواط مقرر کر دیجئیے : تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الله اكبر انها السنن قلتم والذي نفسي بيده كما قالت بنو اسرائيل لموسيٰ — ﴿اجْعَلْ لَنَا إِلَـهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ﴾ — (7-الأعراف:138) لتركبن سنن من كان قبلكم۔۔۔ الله اكبر !
” اللہ اکبر ! اللہ کی قسم، یہ پرانا طریقہ ہے، تم نے اسی طرح کہا: ہے، جس طرح بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: تھا“ ﴿اجْعَلْ لَنَا إِلَـهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ﴾ ( الاعراف ؛ 138 ) ” ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنا دیجئیے، جس طرح ان (کافروں کے معبود ہیں) ضرور تم اپنے سے پہلے لوگوں کے نقش قدم پر چلو گے۔ “ ( مسند الامام احمد : 218/25، جامع الترمذي : 2180، مسند الحميدي ؛ 868، المعجم الكبير للطبراني 274/3، صحيح )
امام ترمذی نے اس حدیث کو ” حسن صحیح“ اور امام ابن حبان ( 6702 ) نے ” صحیح“ کہا: ہے۔
مشروع تبرک
آئیے اب مشروع تبرک کے بارے میں جانتے ہیں:
عیسیٰ بن طہمان کہتے ہیں :​
اخرج الينا انس رضى الله عنه نعلين جرداوين، لهما قبالان، فحدثني ثابت البناني بعد عن انس انهما نعلا النبى صلى الله عليه وسلم
” سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے کے دو جوتے لائے، ان کے دو تسمے تھے، اس کے بعد مجھے ثابت بنانی نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے تھے۔ “ ( صحیح بخاری : 438/1، ح 3107 )
ایک دفعہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے ایک سبز جبہ نکالا اور فرمایا :
هذه كانت عند عائشة حتيٰ قبضت، فلما قبضت قبضتها، وكان النبى كريم صلى الله عليه وسلم يلبسها، فنحن نغسلها للمرضيٰ يستشفيٰ بها
” یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا، آپ فوت ہوئیں تو میں نے اپنے پاس رکھ لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے زیب تن فرمایا کرتے تھے، ہم اسے بیماروں کے لیے شفاء کی امید سے پانی میں ڈالتے ہیں۔ “ ( صحيح مسلم : 190/2، ح 2049 )
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ایک پیالہ اپنے پاس رکھا ہوا تھا، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے پانی پیا تھا، ابوحازم کہتے ہیں کہ ” سہل نے اسے نکالا اور ہم نے اس میں پانی پیا، اس کے بعد امام عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ان سے مانگا، انہوں نے ان کو تحفہ میں دے دیا۔ “ ( صحيح بخاري 842/2 ح 5437 )
عبیدہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
” ہمارے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک تھے، جنہیں ہم نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں سے لیا تھا، کہتے ہیں، اگر میرے پاس آپ کا ایک بال ہو تو مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ پیارا ہے۔ “ ( صحيح بخاري : 29/1، ح : 170 )
تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا
یاد رہے کہ یہ تبرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا، اب کسی اور کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
حافظ شاطبی فرماتے ہیں:​
ان الصحابة بعد موته لم يقع من أحد منهم شيء من ذلك بالنسبة الي من خلفه اذ لم يترك النبى كريم صلى الله عليه وسلم بعده فى الأمة أفضل من أبى بكر الصديق رضى الله عنه فهو كان خليفته ولم يفعل به شيء من ذلك ولا عمر رضى الله عنه وهو كان أفضل الأمة بعده ثم كذلك عثمان ثم على ثم سائر الصحابة الذين لا أحد أفضل منهم فى الأمة ثم لم يثبت لوأحد منهم من طريق صحيح معروف أن متبركا تبرك به على أحد تلك الوجوه أو نحوها بل اقتصروا فيهم على الاقتداء بالٔافعال والٔاقوال والسير التى اتبعوا فيها النبى كريم صلى الله عليه وسلم فهو اذا اجماع منهم على ترك تلك الأشيائ
” صحابہ کرام نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے علاوہ کسی کے لیے یہ (تبرک) مقرر نہ کیا، کیونکہ آپ کے بعد امت میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، آپ کے بعد خلیفہ بھی تھے، ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاملہ نہیں کیا گیا، نہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہی ایسا کیا، وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد امت میں سب سے افضل تھے، پھر اسی طرح سیدنا عثمان و علی رضی اللہ عنہما اور دوسرے صحابہ کرام تھے، کسی سے بھی باسند صحیح ثابت نہیں کہ کسی نے ان کے بارے میں اس طرح سے کوئی تبرک والا سلسلہ جاری کیا ہو، بلکہ ان (صحابہ) کے بارے میں انہوں (دیگر صحابہ و تابعین) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع پر مبنی اقوال و افعال اور طریقہ کار پر اکتفا کیا ہے، لہٰذا یہ ان کی طرف سے ترک تبرکات پر اجماع ہے۔ “ ( الاعتصام 9-2/8 )
یہ ہمارا سیدھا سادہ قرآن وسنت کے مطابق موقف ہے ۔
جائز و ناجائز تبرک کی کیا کیا شکلیں ہیں ، اس کی تفصیلات پر ہماری طرف سے الحمد للہ مستقل تصانیف ہیں ، جن میں سے دو کتابوں کا یہاں ذکر کرتا ہوں :
1۔ جائز و ناجائز تبرک ۔ یہ سعودیہ کے ایک شیخ کی عربی تصنیف ہے، جسے ہمارے اہل حدیث شیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی صاحب نے اردو قالب میں ڈھالا ہے ، اور یہ کتاب تقریبا تین دہائیاں قبل پاکستان میں طبع ہوئی تھی اور اس وقت یہ محدث لائبریری پر درج ذیل لنک پر دستیاب ہے:​
https://kitabosunnat.com/kutub-library/jaiz-aur-najaiz-tabarruk
2۔ ماہنامہ السنۃ کا تبرک نمبر ہے، جو کہ شیخ غلام مصطفی ظہیر اور ان کے تلمیذ رشید حافظ ابو یحیی نور پوری ( حفظہما اللہ ) کی کاوش ہے ، تقریبا ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل یہ رسالہ اپنے موضوع پر ایک بہترین انسائیکلو پیڈیا ہے اور جلالی جیسے لوگوں کے لیے حقیقی چیلنج ہے، جسے قبول کرنا، یا اس پر تبصرہ کرنا ان پر قرض ہے۔ یہ رسالہ بھی پی ڈی ایف میں دستیاب ہے۔​

ماہنامہ السنہ، شمارہ نمبر 73-78 (تبرکات نمبر)


ہماری جلالی صاحب سے گزارش ہے کہ چیلنج چیلنج بہت ہوگیا ، اگر واقعتا احقاق حق کی نیت ہے ، تو بسم اللہ کریں ، میدان میں آجائیں، ہماری ان کتابوں پر تبصرہ فرمادیں ، یا پھرجن علماء کرام نے آپ کا چینلج قبول کیا ہوا ہے ، ان سے مناظرہ کرلیں ، تاکہ حق واضح ہوجائے ۔
اب آپ کہیں کہ میرے ساتھ ساجد میر صاحب ، یا حافظ سعید صاحب ، یا امام کعبہ ہی مناظرہ کریں ، تو میں کرتا ہوں ، تو گزارش ہے کہ اس قسم کی عادات سے باز آجائیں، آپ کا اس قسم کا اصرار اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صرف باتیں کرنا چاہتے ہیں ، میدان میں آنے سے گھبراتے ہیں۔
آپ نے چند سال پہلے ایک مقدمہ قائم کیا تھا کہ ’ امت شرک کرہی نہیں سکتی ‘ آپ کے اس مقدمے کا اہل حدیث نے وہ آپریشن کیا تھا کہ آپ خود دفاعی پوزیشن میں آگئے تھے، بطور نمونہ ملاحظہ کیجیے۔
http://forum.mohaddis.com/threads/9475

اور اب صورت حال یہ ہے کہ خود آپ کے قبیلے کے لوگوں کو جزیرہ عرب میں شرک نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔
یادش بخیر! جلالی صاحب چیلنج کا یہ سلسلہ آپ نے طائف میں گرائے جانے والے کچھ درختوں سے شروع کیا ہے، لیکن آپ کو شاید یہ بھول گیا کہ اسی ملک پاکستان میں، جہاں آپ کو کسی وہابی یا نجدی کا کوئی ڈر خوف نہیں ، وہیں پر آپ کے ایک ’ تبرک‘ کو چیلنج کرکے گرا دیا گیا تھا، آپ کے دلائل میں یا آپ کے تبرکات میں واقعتا کوئی دم خم ہوتا تو ٹالی کٹنے سے بچا لیتے!