سوال (2243)

14 اگست اور اس جیسے تہواروں کے متعلقات کی خرید و فروخت کرنا کیسا ہے؟ کچھ لوگ اس قسم کے کاروبار میں حرج سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ ایک غیر شرعی عمل ہے، دن کا منانا لہذا اس کی مناسبت سے تعلق رکھنے والی چیزوں کی خرید و فروخت سے بھی بچنا چاہیے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

یوم آزادی سے متعلقہ چیزوں کی خرید و فروخت کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ ان میں شرعاً ممنوع چیز نہ ہو۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

سالانہ طور پر کوئی بھی دن مقرر کرکے منانا درست نہیں، جیسے ” فادر ڈے، مدر ڈے، ٹیچر ڈے، اسی طرح سے آزادی کا دن منانا” یہ سب غیر مسلموں کی نقالی ہے، اہل ایمان کے لیے سالانہ طور پر دو تہوار کافی ہیں۔
[صحیح البخاری: 5571]
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بھی کبھی یوم بدر ، فتح مکہ کا دن نہیں منایا، موجودہ دور میں جس طرز پر آزادی کا دن منایا جاتا ہے، ان سب امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دن کو خاص کرکے خوشی منانے کی کراہت بڑھ جاتی ہے، لہذا چونکہ دن خاص کر کے یوم آزادی منانا یہ درست عمل نہیں، اور جو کام ہی صحیح نہیں اس کی نسبت سے مختلف اشیاء کی خرید و فروخت کا سٹال لگانا یہ بھی صحیح نہیں ، اس میں دوسرا نقص مال کا ضیاع بھی ہے، لہذا ان سب چیزوں سے بچنا چاہیے۔
“باجہ” کی خرید و فروخت کو تو معین کرکے حرام ہی کہیں گے۔
[سلسلة الصحیحہ: 1185]

“صوتان ملعونان، صوت مزمار عند نعمة، وصوت ويل عند مصيبة”.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «دو آوازیں ملعون ہیں: خوشی کے وقت بانسری(باجا) کی آواز اور مصیبت کے وقت ہلاکت و بربادی کی آواز» [سندہ حسن]
اور جو چیز حرام ہو اس کی خرید و فروخت بھی حرام ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ

“وإنَّ اللهَ إذا حرَّم شيئًا حرَّم ثمنَه”.

جب اللہ تعالی کسی چیز کو حرام قرار دیتے تو اس کی تجارت کو بھی حرام قرار دیتےہیں.*
[صحیح ابن حبان: 4938، سند صحیح]
لہذا باجے، بانسری کی کمائی کو معین کرکے حرام کہیں گے اور باقی جو بھی جھنڈیوں، وغیرہ کے سٹال لگائے جاتے 14 اگست کا دن معین کر کے منانے کے لیے ان کی خرید و فروخت سے بھی بچنا چاہیے البتہ معین کر کے حرام نہیں کہ سکتے ہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ

بارك الله فيكم و عافاكم
آزادی رب العالمین کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے ، اس کی قدر ان لوگوں سے پوچھیں جو اس آزادی سے محروم ہیں، اور آزادی کے دن کو احسن طریقے سے یاد رکھنا اور شکر گزاری بجا لانا مستحسن عمل ہے، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا روزہ رکھنا اس بارے واضح ہے، تو یوم آزادی کو رب العالمین کے ذکر وشکر اور آزادی کی اہمیت کے عنوان پر لوگوں تک میسج پہنچانے کے صورت میں ہونا چاہیے اور جو آزادی کے نام پر غلط چیزیں معاشرے میں عام ہو چکی اور ہو رہی ہیں ان کی مذمت کریں اور اصلاح کی نیت سے اس کے نقصان و نتائج بیان کریں۔
جہاں تک بات ہے اس سے متعلقہ چیزوں کی خرید و فروخت تو اس میں ایک اسراف نہ ہو اور دوسرا وہ چیزیں غیر شرعی نہ ہوں کا خاص خیال رکھیں۔ آج ملک پاکستان جس بنیاد پر بنا تھا اس سے ہم محروم ہیں، مقصد آزادی وطن کو عام کریں، آزادی وطن کی آڑ میں جو اربوں روپے ضائع کیے جاتے ہیں، اس کے ملک و معیشت پر منفی اثرات کو بیان کریں۔ باری تعالی کا بے حد شکر ہے کہ آج ہم اپنے پیارے وطن میں آزادی کے ساتھ دین اسلام پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور عبادات بجا لاتے ہیں۔ رہا مسئلہ حرام اشیاء کی خرید وفروخت کا تو اس بارے میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

“ﻭﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﺇﺫا ﺣﺮﻡ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻡ ﺃﻛﻞ ﺷﻲء ﺣﺮﻡ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﺛﻤﻨﻪ”.
[سنن ابو داود: 3488، مسند أحمد: 2221، 2678، 2961، مصنف ابن أبي شيبة: 20381 صحیح]

اور اس کا شاہد دیکھیے
[الجعديات / مسند علي بن الجعد: 3319]
اس کی مثال شراب حرام ہے تو اس کی تجارت بھی حرام ہے۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:

“ﺇﻥ اﻟﺬﻱ ﺣﺮﻡ ﺷﺮﺑﻬﺎ ﺣﺮﻡ ﺑﻴﻌﻬﺎ”
[موطا امام مالک: 2/ 846، مسند الشافعی: 1461 ،صحیح مسلم: 1579]
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

دیگر باتوں سے قطع نظر “حدیث صوتان” تو ضعیف ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

سائل:
14 آگست کی تقریبات نج دنیاوی رسم ہے، نہ ثواب سمجھ کر کی جاتی ہے اور نہ دین سمجھ کر، پھر ایسی تقریب میں جانے میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟
جواب:
جس تقریب میں کوئی خلاف شرع کام نہ ہو، وہاں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، جہاں موسیقی بے پردہ لڑکیاں شریک ہوں، وہ شیطانی محفل ہوتی ہے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ