ہم اپنی پرانی یادوں کو بھلانا نہیں چاہتے جو لوگ ہمیں ماضی میں ملے اور ہم سے رخصت ہوگئے انہیں ہم بھلانا نہیں چاہتے کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے ماضی کی یادیں ہی ہماری خوشیاں تھیں حالانکہ یہ سچ نہیں درحقیقت ہمارا مستقبل زیادہ روشن اور ہمارا حال زیادہ طاقتور ہوتا ہے بعض دفعہ تو ایسی خوشیاں ہمیں ملتی ہیں جنکے بارے ہم صرف سوچتے تھے اور حسرت کرتے تھے ہم امیدوں کی بجائے یادوں کو جب ترجیح دیتے ہیں تو ہمارا مستقبل ہم سے ناراض رہتا ہے حال ہم سے اداس رہتا ہے.
مستقبل کی امیدیں ہمیں زیادہ پرجوش کرتی ہیں جبکہ ماضی کی یادیں کسی نشہ کی طرح صرف ہمیں نڈھال کر سکتی ہیں لیکن پھر بھی ہم اپنی یادوں میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں حالانکہ ہمارا مستقبل ہماری راہیں دیکھ رہا ہوتا ہے.!
ان تمام سلسلوں میں کمی صرف یہ ہے کہ ہمیں اپنے جوھر پر بھروسہ نہیں ہوتا کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ جو ہمارا ماضی گزرا وہی کامل اور سچ تھا کیونکہ ہمارا اس پر اب کوئی رد و بدل کا اختیار نہیں ہے وہ جیسا بھی تھا اب محفوظ اور ناقابل تردید ہے جبکہ مستقبل کے بارے ہمیں یقین نہیں ہوتا کیونکہ اس بارے ہمیں نیگیٹو چیزوں کو ساتھ لیکر چلنا ہوتا ہے اور خطرات سے ڈر لگتا ہے کوئی ایڈوینچر کرنے سے جھجھک ہوتی ہے اور سب سے بڑی بات ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں مستقبل پر مکمل اختیار ہے جو کہ سراسر الوژن ہے درحقیقت مستقبل تو تلاش کرنے کی چیز ہے،تجسس کرنے کے لائق ہے،امیدیں بنانے کے لائق ہے جبکہ ہم اسے اپنے اختیار میں سمجھ کر اور ملکیت جان کر اس بارے پریشان رہتے ہیں کہیں وہ ہم سے کھو نہ جائے گویا کہ وہ ہمارا متاعِ وراثت ہے..!
بزدل نہ بنیں بہادری دکھائیں اور اپنی مطلوبہ چیز کا برملا اظہار کریں زور سے پکاریں گویا کہ ہر چیز آپکی تسخیر میں ہے زمین و آسمان کو گواہ بنائیں اور اپنے جوھر سے مرتبط ہوجائیں، اسکے سامنے آنے والے ڈراؤنے خوابوں کو للکاریں،رجولیت کا مظاہرہ کریں..!
جو تھا وہ تھا جو ہے اس پر غور کریں اسے اگنور کر کے مایوس نہ کریں اور جو ہونے والا ہے اسکی جستجو میں کسی بھی قسم کی بازی لگانے سے ہرگز نہ کترائیں جو آپکو لگتا ہے کہ وہ آپکا ہی ہے اسے حاصل کریں اور جو صرف لگتا ہی ہے اس لا حاصل کے پیچھے اپنی سانسیں نہ ضائع کریں..!
ماضی کی یادوں میں مست ہونا درحقیقت ہماری رفتار کو سست کرتا ہے وہ چیزیں جنہیں ہم مستقبل میں بہت جلد پانے والے ہوتے ہیں ان سے ہمیں بر طرف کرتا ہے ہمیں اپنے روشن مستقبل کیلئے اپنی یادوں کو الوداع کرنا ہی ہوگا جو لوگ ہمیں الوداع کر گئے انہیں اسی طرح ذھن و قلب سے الوداع کرنا ہی ہوگا اسی پروٹوکول کیساتھ جو انکے لائق ہے
لیکن انکی یادوں میں مست ہوکر حال اور مستقبل سے بے پرواہ ہونا ہمیں ذیب نہیں دیتا یہی بہتر ہے کہ ہم موجود اور حال کی طاقت کو بھانپتے ہوئے لا حاصل اور اور غیر موجود کا پیچھا چھوڑ دیں یہ ایک نشے کے سوا کچھ نہیں اور نشہ کوئی بھی ہو ہمیشہ قلب و دماغ کو سست کرتا ہے.
اپنی خودی کو سنبھالیں اسکے جوھر سے بھر پور مستفید ہوں اور جو چیزیں خودی کیلئے نقصان دہ ہوں ان سے کنارہ کش ہوں اگر اسکا تعلق لوگوں سے ہے تو انکو بالکل برطرف کردیں اور اگر خودی کے آگے رکاوٹیں آپکے اپنے نفس کی جانب سے ہیں انہیں آہستہ آہستہ تبدیل کریں اور خودی کے جوھر کو غبار آلود نہ ہونے دیں یہ خودی آپکو تنقید و تعریف سے ماوراء ہوکر کام کرنے میں مدد دیتی ہے آپ جہاں بھی ہیں جیسی بھی حالت میں ہیں یہ ہمیشہ آپ کیلئے کسی فرشتے سے کم نہیں ہوگی جو آپکو کبھی بھی ہارنے نہیں دیگی آپکو نظریات پر کمپرومائز نہیں کرنے دے گی رذیل خصلتوں سے بچا کر رکھے گی اور منزل موھوب تک پہنچا کر رہے گی
زندگی میں لذت بھرنے کیلئے صرف خوشیاں ہی ضروری نہیں بلکہ باد مخالف کا چلنا بھی ضروری ہے چی گویرا کی مشھور کوٹیشن ہے” زندگی میں دوست نہ ہوں یہ بڑی بات نہیں لیکن زندگی میں مخالف نہ ہوں یہ ضرور افسوس ناک بات ہے”
باد مخالف آپکو زندگی جینے کی وجہ دیتی ہے اور یہ وجہ ایسی ہوتی ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگ سکتا کیونکہ زندگی جینے کی جو وجہ خوشیوں سے ملتی ہے اسے زنگ لگ سکتا ہے
باد مخالف نظریات بھی ہوسکتے ہیں اور کچھ لوگ بھی ہوسکتے ہیں بہرحال جو بھی ہوں زندگی میں رنگ ضرور بھرتے ہیں اور ایسے نقش چھوڑتے ہیں جو کبھی مانند نہیں پڑ سکتے آپکو اپنے آپ سے ملاقات کرواتے ہیں.
میرا ماننا ہے کہ جو مزہ باد مخالف کو جھیلنے کا اور مخالف لہروں میں تیرنے کا ہے وہ مٹھاس بھری زندگی جینے میں نہیں ہے انسانی طبیعت ہی کچھ ایسی ہے کہ مزاج کے مخالف چیز کو انتہائی مؤثر طریقے سے جذب کرتی ہے اور اسکو روح و بدن میں بھرپور طریقے سے ایسے پھیلا دیتی ہے کہ جسم میں میں چلنے والے خون اور سانس سے زیادہ متحرک ہوتی ہے اسکی جاذبیت اتنی کمال کی ہوتی ہے کہ وہ احساسات جو استعمال نہ ہونے کی وجہ سے کند ہوچکے ہوتے ہیں انہیں دوبارہ سے پھر زندگی ملتی ہے اور یوں انسان کے کمال کا پہیہ چلنے لگتا ہے انسان اپنے جوھر کو بھانپتا ہے اور گہری سانسیں لیتا ہے گویا کہ روح سے رابطہ ہوچکا ہو.

عمیر رمضان