وکٹوریا ہسپتال بہاول پور کے چلڈرن وارڈ میں پانی کی کمی کے باعث نزار و نڈھال اور اَدھ مُوئے محمد طلحہ کی حالت دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے، ڈاکٹر بچے کے پیٹ کی کھال کو چٹکی سے پکڑ کر چھوڑتا تو کھال کافی دیر تک چِپکی رہتی، اُس کی آنکھیں اندر کو دھنسی چکی تھیں اور وہ لاغر و ناتواں ،بے حس و حرکت موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا۔سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں بیٹے کی چاہت کا اسیر ایک دل گیر باپ اپنے رب کی جناب میں دعاؤں، التجاؤں اور مناجاتوں کے لیے فقیر بنا ہوا تھا۔ڈاکٹرز بچے کو پانی کی ڈرپس مسلسل لگا کر اس کی جان بچانے کی سرتوڑ کوششیں کرتے رہے، تین دنوں تک بچے کی پلکوں میں جنبش تک نہ ہوئی۔ناامیدی تھی کہ لپک لپک کر دل پر حملہ آور ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔تین دنوں کے بعد محمد طلحہ کو خون کی ڈرپ لگائی گئی تو اس کی آنکھوں میں حرکت پیدا ہوئی پھر شام تک اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں تو دلِ حیات کے سلگتے دشت میں خوشیوں سے معطر پھول کِھلتے چلے گئے۔بیٹے کی جان لیوا بیماری کے باعث سرد راتوں میں جتنی صعوبتیں جھیلی تھیں وہ سب کافور ہو گئیں اور رفتہ رفتہ بچہ توانا ہوتا چلا گیا۔آج محمد طلحہ تنومند ہے، وہ صحت مند اور تن درست ہے (الحمدللہ )۔
نومبر 2016 ء میں بھارتی وزیرِ اعظم مودی نے نئی دہلی میں ایک اعلا سطحی اجلاس طلب کیا تھا، جس کا بنیادی مقصد پاکستان کا پانی مکمل طور پر روک لینا تھا۔اس کے چند دن بعد مودی نے بھارتی پنجاب کے شہر بٹھنڈا میں پاکستان کو دھمکی دی کہ وہ پاکستان میں جانے والے پانی کی بوند بوند کو روکیں گے اور یہ پانی بھارتی کسانوں کو دیا جائے گا۔
پاکستان کے پانی کو روک لینے کے لیے جو پہلی فریب کاری کی گئی تھی وہ 1960 ء میں سندھ طاس معاہدے کی تھی۔اس معاہدے میں تین دریاؤں کا پانی پاکستان سے چھین کر بھارت کی توند میں ڈال دیا گیا تھا۔پاکستان کو صرف تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب کا پانی دیا گیا۔پاکستان کے لیے ناسور بننے والے اس معاہدے کے ذریعے پاکستان نے تین دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کا 26 ملین ایکڑ فٹ پانی بھارت کی گود میں ڈال دیا گیا۔سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے لیے کسی المیے اور سانحے سے کم نہ تھا، جس کا نقصان پاکستانی کسان کو ہوا مگر عاقبت نااندیش پاکستانی حکمرانوں نے مستقبل سے اپنی نظریں موند کر یہ معاہدہ کر لیا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بعد میں آنے والے حکمران اس معاہدے کی سازشوں کو بے نقاب کر کے اس سے سرِمُو انحراف کر کے ستلج، راوی اور بیاس کے پانی کی واپسی کا مطالبہ کرتے مگر ایسا کچھ نہ ہو سکا۔بھارتی انتہا پسند حکمرانوں نے اس معاہدے کی بھی کُھلم کُھلا خلاف ورزی شروع کر دی۔بھارتی حکمران پاکستان کی طرف بہنے والے دریائے سندھ کے پانی میں بھی رکاوٹیں ڈالنے کی باتیں کرنے لگے۔پاکستان کا کثیر پانی اپنے پیٹ میں اتار کر بھی سندھ طاس معاہدہ ہندوؤں کے وارے نہیں آ رہا۔صرف مودی ہی نہیں بلکہ اندرا گاندھی اور واجپائی بھی ایسی ہی باتیں کرتے رہے ہیں۔پاکستان میں آب پاشی کا سب سے بڑا ذریعہ دریائے سندھ ہے، اگر سندھ کے پانی کو روک لیا گیا تو پاکستان کے لیے بڑا ہی تباہی کن ثابت ہو سکتا ہے۔بھارت اس پر بھی ڈیم بنانے سے باز نہیں آرہا۔اب آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ ملاحظہ کر لیجیے! کہ جس کے مطابق پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوچکا ہے جو پانی کی شدید کمی کے شکار ہیں، جہاں فی کس پانی کی فراہمی سب سے کم ہو چکی ہے جو کہ 35300 کیوبک فٹ سالانہ ہے۔پاکستان کی زراعت اس سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔بہ الفاظِ دیگر پاکستان پانی کی قلت میں میں سرِ فہرست ہے، اس کے اثرات فی الحال اتنے شدید نہیں ہیں کیوں کہ پاکستان اپنے زیرِ زمین پانی کے ذخائر استعمال کر رہا ہے، مگر مستقبل بڑا ہی بھیانک منظر پیش کر رہا ہے۔ ”فارن پالیسی “ میں اس موضوع پر ایک مکمل رپورٹ شائع ہو چکی ہے، جس کے مطابق جنوبی ایشیا میں پانی کے امور کے ماہر جان برسکوئی لکھتا ہے کہ ” اگر بھارت ڈیم بناتا ہے تو سندھ کا بہاؤ اتنا کم ہو جائے گا کہ پاکستان میں فصلوں کی کاشت کے لیے پانی ہی میسر نہیں آئے گا ” پاکستانی اور بھارتی حکمرانوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ بھارتی حکمران بھارت کے تابناک مستقبل کے متعلق سوچنے میں مگن رہتے ہیں جب کہ پاکستان کے سیاست دان محض اپنے پانچ سال پورے کرنے کے جتن کرنے میں دن رات ایک کیے رکھتے ہیں۔کیا ان سیاسی” پہلوانوں “ کو اتنا ادراک بھی نہیں کہ پانی کی موجودگی میں حیات اور عدم موجودگی میں ممات ہے اور ممات کا سبب بننے والی یہ پیاس اتنی بھیانک ہوتی ہے جو انسان کو اتنا نڈھال کر ڈالتی ہے کہ سسکیاں تک نہیں نکلتیں۔چند سال پیشتر عمران خان نے بان کی مون کو خط لکھا تھا کہ ”امن کو خطرہ ہے، بھارتی شرانگیزی روکی جائے “ یہ محض سطحی سی بات تھی، اگر بان کی مون بھارتی شرانگیزی روک بھی لیتا تو کیا فرق پڑتا تھا؟ اصل بات یہ ہے کہ بھارت کو دریاؤں پر ڈیم بنانے سے روکا جائے۔ہمیں اصل خطرہ بھارتی ڈیموں سے ہے کہ جو ہمیں پیاس کی آخری سطح پر لا کھڑا کریں گے۔پاکستان کے اکثر سیاست دانوں کو علم ہے کہ اگر بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے تو پاکستان کا سب سے بڑا اتحادی مُلک چِین بھی بھارت کا پانی بند کر کے اس کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔چِین کا دریا براہما پترا کا پانی بھارت جاتا ہے اگر چین براہما پترا کا پانی روک لے تو اس کے اثرات بھارتی ریاست آسام تک جائیں گے۔چین دریائے سندھ کا پانی بھی روک سکتا ہے، جس کا آغاز تبت سے ہوتا ہے، سو ان سیاسی اہل حل و عقد کو چاہیے کہ چِین کو اس بات پر تیار کریں کہ وہ براہما پترا کا پانی روکنے کے لیے ڈیم بنائے۔بھارت سے خیر کی توقیر رکھنا عبث اور رایگاں ہے کہ وہ پاکستان کی دشمنی میں آب اتنا کُھل کر سامنے آ گیا ہے کہ ماضی میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
سیز فائر کی خلاف ورزی اور فائرنگ کو وہ مقبوضہ کشمیر جیسے اہم مسئلے اور دریاؤں پر ڈیم بنانے سے پاکستان کی توجہ ہٹانے کے لیے کور فائر کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔مودی پاکستان کے پانی کی بوند بوند کو روکنا چاہتا ہے اس خبث باطن کا نہ صرف مودی اظہار کر چکا ہے بلکہ وہ عملی طور پر بھی اس کام میں مصروف ہے۔وہ پاکستان کے ساتھ لڑنے کی سکت اور تاب نہیں رکھتا، وہ 1971 ء کی طرح سازشیں کر کے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔
بھارت سے وفاؤں کی خود فریبی سے اب پاکستانی سیاست دانوں کو باہر نکل کر حقائق کو اپنی چشمِ بصیرت سے دیکھنا چاہیے کہ مودی کیا کرنے جا رہا ہے؟ پاکستان کی نہریں خشک پڑی ریت اڑا کر پاکستانی کسانوں کا کلیجا چیر رہی ہیں، ہمارے کسان مضطرب ہیں، ہماری فصلیں خشک پڑی ہیں، چولستان میں تشنہ لب انسان اور حیوان مر رہے ہیں، اب مودی کے جارحانہ عزائم کے سامنے ڈھال بننے کی اشد ضرورت ہے۔
پانی کی کمی کسی محمد طلحہ نامی بچے میں ہو یا پاکستان نام سے موسوم کسی مُلک میں، یہ ذی روحوں سے زندگیوں کی رمق، چہروں کی چمک اور جذبوں کی دمک سب کچھ نچوڑ لیتی ہے، یہ زرخیز زمینوں کو بنجر بنا ڈالتی ہے، یہ ربط و ضبط سے آراستہ دل کی دھڑکنوں کو رفتہ رفتہ موت کی چوکھٹ پر لا کھڑا کرتی ہے، اگر اس جاں لیوا عارضے کا بروقت تدارک اور علاج نہ کیا جائے تو پانی کی کمی توانا اور جوان رعنا لوگوں سے چلنے پھرنے حتیٰ کہ بولنے اور دیکھنے کی قوت تک سلب کر لیتی ہے۔راجیش ریڈی کا بہت عمدہ شعر ہے
اب تو سراب ہی سے بجھانے لگے ہیں پیاس
لینے لگے ہیں کام یقیں کا گماں سے ہم