اس حوالے سے ہر سال ایک پوسٹ گردش کرتی ہے جس میں
ابن رجب رحمہ اللہ اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف اقوال منسوب کیے جاتے ہیں
جیسا کہ ابن رجب رحمہ اللہ کا یہ قول گردش کرتا ہے ۔۔

“علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ اپنی معروف کتاب’’لطائف المعارف‘‘ میں لکھتے ہیں:
جب جمعہ کی رات طاق رات سے آملے تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہی شب قدر ہے”۔۔۔

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف بھی ایک قول منسوب کیا جاتا ہے جوکہ درج ذیل ہے

” شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
جب جمعہ کی رات آخری عشرہ کی طاق رات سے ملے تو یہ رات لائق ہے کہ اسے شب قدر کا درجہ ملے”..

پھر مسجد قباء کے امام وخطیب کا قول بھی اُسی پوسٹ کا حصہ ہوتا ہے جوکہ درج ذیل ہے۔

“مدینہ منورہ کی مسجد قبا کی امام وخطیب شیخ صالح المغامسی نے کہا ہے کہ آج کی رات جمعرات ہے اور طاق رات بھی ہے ۔ قوی امید ہے کہ آج شب ہو اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ اس رات میں کثرت سے عبادت کریں”…

اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس بات پر تو اتفاق ہے کہ لیلة القدر آخری عشرے میں ہے۔۔۔
لیکن اس بارے روایات تین طرح کی ہیں

1️⃣ پہلی قسم :
بعض روایات میں اسے مطلقا آخری عشرے میں تلاش کرنے کا کہا گیا ہے ..

2️⃣ دوسری قسم :
وہ روایات جن میں لیلة القدر کو طاق راتوں ساتھ مقید کر دیا ہے یعنی کہ امت کو یہ کہا گیا ہے کہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے تلاش کریں ۔۔

3️⃣ تیسری قسم :
یہ وہ روایات ہیں جن میں لیلة القدر کو طاق راتوں میں بھی بعض راتوں ساتھ مقید کر دیا ہے جیسا ستائیسویں رات کے بارے روایت مشہور ہے..

انہی مطلق ومقید روایات کے پیش نظر ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے تقریبا چالیس کے قریب اقوال نقل کیے ہیں اور اختتام ان الفاظ سے کیا ہے
“وارجحها کلها انها فی وتر من العشر الاخیر وانها تنتقل کما یفہم من احادیث ہذا الباب”
اور ان سب میں ترجیح اس قول کو حاصل ہے کہ یہ مبارک رات رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ اور یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے جیسا کہ اس باب کی احادیث سے سمجھا جاتا ہے۔۔

اس سے دو باتیں سمجھ آتی ہیں
1) پہلی بات یہ سمجھ آتی ہے کہ لیلة القدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں اس کا امکان زیادہ قوی ہوتا ہے اسی لیے اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے

2) ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے قول سے دوسری بات یہ بھی پتا کہ یہ رات منتقل ہوتی رہتی ہے یعنی کسی ایک طاق رات میں مقید نہیں ہے یعنی ہر سال بدل کر آتی ہے ۔۔۔

اس کے ہر سال بدل بدل کر آنے میں ہی تو حکمت ہے جسے علماء کرام نے یوں بیان کیا ہے
قال العلماء الحکمة فی اخفاءالقدر لیحصل الاجتهاد فی التماسها بخلاف ما لوعینت لها لیلة لاقتصر علیها۔۔۔
علماء کرام نے کہا کہ اس رات کے مخفی ہونے میں یہ حکمت ہے تاکہ اس کی تلاش کے لیے کوشش کی جائے،اگر اسے معین کر دیا جاتا تو پھر اس رات پر انحصار کر لیا جاتا۔۔

اب آتا ہوں پوسٹ میں موجود اقوال کی حقیقت طرف ۔۔۔

ابن رجب رحمہ اللہ کا قول ہے:
اس قول کی تائید میں احادیث اور آثار صحابہ سے کچھ نہیں ملتا یعنی اس بات کی تائید کتاب وسنت کے دلائل سے نہیں ہوتی ہے اس لیے اس قول پر انحصار نہیں ہو سکتا ہے

ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول:
بہت کوشش اور ریسرچ کرنے کے باوجود مجھے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ قول نہیں مل سکا ۔۔۔

جب یہ قول ہی ثابت نہیں ہے تو پھر اس غیر ثابت قول پر ایک بنیادی حکم کی بنیاد کیسے رکھی جا سکتی ہے ؟
نوٹ:
اگر کسی صاحب علم کے علم میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے قول کا ماخذ ہو تو بندہ ناچیز کی رہنمائی کر دیں تاکہ اس سے مستفید ہوا جا سکے ۔۔۔

صالح المغامسی (امام وخطیب مسجد قباء) کا قول :
ان کی ذات کے بارے ہمارے ایک فاضل بھائی شیخ حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ نے یہ تبصرہ کیا ہے جو کہ درج ذیل ہے

“صالح المغامسی گمراہ شخص ہے، کئی سال پہلے مسجد قباء کا امام تھا، اب تو ہٹا دیا گیا ہے،پتا نہیں کب کی پوسٹ چلتی چلاتی پھر رہی ہے “۔۔

ایسے شخص کی بات کا کیا اعتبار ہو گا جو خود گمراہ شخص ہے اور پھر اس بات کی کتاب وسنت سے کوئی نص بھی ثابت نہ ہو۔۔
لہذا معلوم ہوا کہ یہ جو بات مشہور ہے کہ جمعے کی طاق رات ہو تو وہ لیلة القدر ہوتی ہے یا اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اس بات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور جو اقوال پیش کیے جاتے ہیں ان کا اوپر جواب دیا جا چکا ہے ۔۔

اس لیے بنا کسی طاق رات کو مخصوص کیے سب طاق راتوں میں خوب عبادات کی جائیں تاکہ اس رات کے ثواب کو حاصل کیا جا سکے ۔۔۔
اور یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ عبادات کا طریقہ کار اور ان کی تعداد وہی ہو گی جو کتاب وسنت سے ثابت ہے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی سے ہمیں معلوم ہوا ہے ۔۔۔

 کامـــــران الٰہـــی ظہیـــــر