کراماتِ اولیاء سے متعلق مجموعی طور پر ایک مفید کتاب علامہ صنعانی رحمہ اللہ کی بھی ہے۔ جس کا نام انہوں نے رکھا ہے:
’’الإنصاف في حقيقة الأولياء ومالهم من الكرامات والألطاف’’
یہ آج سے کوئی بیس سال پہلے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی طرف سے اہتمام و تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔ شاملہ اور انٹرنیٹ پر موجود ہے۔
تحقیق و ایڈٹ کرنے والی عظیم الشان شخصیت فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق البدر حفظہ اللہ ہیں۔ (شیخ کا اس پر غالبا گھنٹے ڈیڑھ کا ایک خطاب بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے)

البتہ محقق کتاب نے اس کتاب سے متعلق بھی شروع میں تنبیہ فرمائی ہے کہ:

’’وإن كان رحمه الله قد جنح في كتابه هذا إلى قول أبي إسحاق الإسفرايني ومن قبله المعتزلة من أنَّ الكرامة إنما تكون في غير الأمر الخارق للعادة، وهو قول مخالف للحق والصواب، وسيأتي الكلام عليه ومناقشته وبيان بطلانه في الدراسة الآتية عن موضوع الكتاب1.
ولم يكن هذا مانعاً – فيما أرى – من الإفادة من مادة الكتاب العلمية الجيدة في الرد على المتصوفة وأضرابهم ممن غلوا في الأولياء، مع التنبيه في هامشه إلى ما يحتاج إلى تنبيه.
وقد كنت بادئ الأمر متردّداً في تحقيق ونشر هذا الكتاب نظراً لما فيه من أخطاء ومخالفات ليست باليسيرة غير أنَّه دفعني لذلك أمران:
الأول: اشتماله على ردود جيدة ومناقشات مفيدة مع المتصوفة الذين غلوا في الأولياء وكراماتهم غلوّاً شديداً.
الثاني: خشية أن تقوم بعض دور النشر بطبعه على علاته وأخطائه دون تنبيهٍ على ما فيه أو كشفٍ لخوافيه، اعتماداً على مكانة مؤلفه’’۔

اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ کتاب مجموعی طور پر بہت مفید ہے، لیکن صاحب کتاب بھی رد عمل میں بعض امور میں راہ اعتدال سے ہٹ گئے ہیں، جس پر ساتھ ساتھ تنبیہ کردی گئی ہے۔
کرامات سے متعلق تین قسم کے لوگ ہیں:
ایک افراط والے، یعنی جنہوں نے ہر جھوٹ سچ کو کرامات کا نام دے دیا اور اس پر لمبی لمبی گپیں چھوڑنا شروع کردیں۔ جیسا کہ بہت سارے صوفی اور اہل بدعت لوگوں کا وتیرہ ہے۔
دوسرے تفریط والے: جنہوں نے مستند و ثابت شدہ کرامات ہی نہیں بلکہ معجزات کا بھی انکار کیا۔ یہ عقل پرست لوگ ہیں۔ پہلے معتزلہ تھے اب عصر حاضر میں یہ منکرین حدیث کہلاتے ہیں۔
اور تیسرے اعتدال کا راستہ اختیار کرنے والے، جنہوں نے ثابت شدہ کو مانا ہے، جبکہ من گھڑت کا انکار کیا ہے۔
اور ثابت شدہ سے مراد بھی عقلی پیمانے کی بات نہیں کر رہا، بلکہ اس کی استنادی حیثیت مراد ہے۔ ورنہ معجزہ اور کرامت تو ہوتی وہ ہے جو خرق عادت یعنی عقل میں نہ آنے والی ہو۔
عموما لوگوں میں یہ تاثر ہے کہ اہل حدیث یا وہابی کرامات کو نہیں مانتے، حالانکہ یہ تاثر درست نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ علمائے اہل حدیث غیر مستند و من گھڑت قصے کہانیوں کو نہیں مانتے، مستند کرامات کا اقرار کرتے ہیں۔
البتہ اہل حدیث بزرگوں کی سیر و سوانح میں بہت ساری ایسی چیزیں موجود ہیں، جن پر دونوں قسم کی آراء ہیں، کچھ لوگ انہیں مستند کرامات اور کچھ لوگ انہیں من گھڑت کہانیاں سمجھتے ہیں۔
اس پر بعض بزرگوں کی ’کراماتِ اہل حدیث‘ کے نام سے باقاعدہ کتاب بھی موجود ہے۔
چند سال پہلے ’’تصوف و احسان علمائے اہل حدیث کی نظر میں’’ اس قسم کی کچھ کتابیں بھی منظر عام پر آئیں، جن کا مدعا یہ تھا کہ وہابیوں میں بھی بڑے بڑے صوفی اور صاحب کرامات بزرگ گزرے ہیں۔
لیکن اس کتاب سے متعلق کئی ایک اہل حدیث علمائے کرام نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ ہمارا نمائندہ موقف نہیں ہے، انہیں میں سے ایک ڈاکٹر زبیر صاحب بھی تھے، جنہوں نے اس پر باقاعدہ تحریر لکھی کہ اس قسم کی کتابوں میں مسلک اہل حدیث کے بیان میں خیانت کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

خیر اس تحریر کے آخر میں ایک گزارش ہے جن مسائل میں اختلاف موجود ہے، اور سوچ و فکر کے زاویے مختلف ہوسکتے ہیں، ان کے متفق علیہ ہونے کی امید نہ رکھیں اور انہ اس انداز سے دوسرے پر طعن و تشنیع کریں کہ وہ آپ کی بات کیوں نہیں مان رہا..؟
اختلافی مسئلہ میں عالم کا کام راجح مسئلہ اور اپنی دلیل کا بیان اور مخالف کی دلیل کا توڑ ہوتا ہے، مخالف فریق کو منہدم و معدوم کرنے کی خواہش اہل حق کو بھی غلط رستے پر ڈال دیتی ہے۔

#خیال_خاطر