مَحبّت انتہائی قابلِ توقیر اور لائقِ تکریم جذبات و احساسات کا نام ہے مگر مَحبّت کے انتہائی منزّہ، مطہّر اور مقدّس زینے پر وہی دل جلوہ افروز ہوتا ہے جس کا گوشہ گوشہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مَحبّت سے دمکتا ہے۔آپ دنیا کی عظیم المعتبر شخصیات اور ان کے عقیدت مندوں کو دیکھ لیجیے!اتنی بے کراں مَحبّتیں کسی بھی شخصیت کے حصّے میں نہیں آئیں، جتنی محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مسلمان کرتے ہیں، اتنی بے پایاں عقیدتیں اور اِس قدر بے بہا اطاعتیں دنیا کے کسی اور انسان کے لیے دلوں میں نہیں جگمگاتیں۔
صدیاں بیت چلِیں، کتنے ہی ماہ و سال افق کے اُس پار ڈوب چلے ، مَحبّت اور الفت کی اس نزہت اور تقدیس میں بال برابر فرق نہیں آیا۔جو بھی کلمہ پڑھتا ہے وہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک مستحکم پیمانِ وفا میں خود بہ خود بندھ جاتا ہے اور یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ عقیدتوں کے اتنے گراں مایہ رشتے خود بہ خود کس طرح دلوں میں موجزن ہو جاتے ہیں کہ کائنات کے اس سب سے عظیم انسان کی توہین، استہزا اور تضحیک دلوں کو چیر ڈالتی ہے۔کسی بھی مسلمان کی آنکھیں کسی بھی گستاخِ رسول کو کبھی برداشت نہیں کر سکتیں۔جب بھی کوئی بدبخت انسان نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تضحیک کرتا ہے، کروڑوں انسانوں کے دل کُملا جاتے ہیں، عقیدتوں کا یہ بحرِ بے کراں دیکھ کر ہنود و یہود حسد کی بھٹّی میں جَل بُھن جاتے ہیں۔نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اِس قدر والہانہ چاہتوں پر کفار کے دلوں میں عناد و فساد صدیوں سے پھن پھیلائے پھنکار رہا ہے۔شاید وہ مادہ پرست لوگ غلط فہمیوں کے اس اندھیرے میں سرگرداں ہیں کہ جذبات و احساسات پر قدغنیں لگائی جا سکتی ہیں، ممکن ہے ان کے دلوں پر پردہ پڑ گیا ہو کہ چاہتوں اور عقیدتوں کو پابندِ سلاسل کیا جا سکتا ہے۔ایسا تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ خیالات کو بیڑیاں پہنا دی جائیں، یقیناً جسموں کو زنجیر بہ پا کیا جا سکتا ہے، انسان کے وجود کو مٹایا جاسکتا ہے مگر کسی کے دل میں موجود مَحبّت کو اس سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔دنیا کے کسی ایک مسلمان کے دل سے بھی رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مَحبّت کو کم نہیں کیا جا سکتا۔اگر ہم اپنی ذات سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جدا کر دیں تو اللہ کی قسم ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔
وہ 2005 ء تھا جب یورپ کے ایک ملک ڈنمارک نے دنیا کی سب اعلا و ارفع شخصیت کے خاکے شائع کروانے کا مقابلہ شروع کیا، دنیا کے ہر مسلمان کے سینے میں غیظ و غضب کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔30 ستمبر 2005 ء کو اخبار جیلنڈر پوسٹن نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارہ خاکے شائع کیے اور پھر کئی یورپی ممالک نے ڈنمارک سے اظہار یک جہتی کے لیے ان خاکوں کو شائع کیا۔شدت پسندی کی آگ خود بھڑکانے والے یورپی ممالک، مسلمانوں ہی کو دہشت گرد قرار دیتے رہے۔جب کروڑوں جانوں سے بڑھ کر چاہے جانے والی شخصیت کے خاکے بنائے جائیں گے اور جب قرآن مقدّس نذرِ آتش کیے جائیں گے تو پھر دنیا میں بھونچال تو آئے گا۔
محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استہزا یورپ سے ہوتا ہوا بھارت تک پہنچ چکا ہے۔بھارتی حکمران جماعت بی جے پی کی نوپور شرما نے محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا استہزا کر کے بھارت میں آگ اور خون کا کھیل شروع کر دیا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی پر احتجاج کرنے والے مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔پولیس کی نگرانی میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کیا جا رہا ہے، یہی نہیں بلکہ 300 سے زائد مسلمانوں کو احتجاج کرنے کی پاداش میں گرفتار بھی کر لیا گیا ہے، اتر پردیش کا شدت پسند وزیرِ اعلا ہرزہ سرائی کرتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اتنی بڑی کارروائی ہونی چاہیے جو سب کے لیے مثال بن جائے۔اس دنیا کے اصول اور ضابطے ملاحظہ کیجیے! کہ 2015 ء میں بدھا دہشت گردوں نے بھی ایک مدرسے پر حملہ کر کے قرآن پاک کے چالیس حفاظِ کرام کو زندہ جلا دیا تھا، کیا یہ دہشت گردی نہیں تھی۔وہ مغرب ہو یا امریکا، وہ یورپ ہو یا بھارت، انھیں ذرا توقف کر کے اس پہلو پر سوچنا ہو گا کہ تہذیب اور تعلیم کے سانچوں میں ڈھلے قلوب و اذہان یوں پیغمبروں کی شانِ اقدس پر یاوہ گوئی نہیں کیا کرتے۔آزادیِ اظہار کا یہ مطلب تو نہیں ہُوا کرتا کہ ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمانوں کے ارمانوں اور مَحبّتوں کا یوں خون کر دیا جائے۔کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کو اس قدر سرکشی اور بغاوت پر نہیں اترنا چاہیے کہ محترم المقام شخصیتوں ہی کو ہدف بنا لیں۔اگر ہنود و یہود مَحبّتوں کے اس توانا ایمانی رشتے کو اپاہج کر دینے کے لیے یہ سب پاپڑ بیل رہے ہیں، اگر کفار یہ چاہتے ہیں کہ عقیدتوں کے اس انوکھے رشتے میں دراڑیں ڈال کر مسلمانوں کو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مَحبّت کے معطّر حصار سے باہر نکال لیں گے تو یہ خود فریبی کے سوا کچھ بھی تو نہیں، اظہارِ رائے کی ایسی تخریبی آزادیاں زہریلی، نفرتوں کو جنم دیا کرتی ہیں۔جب کسی کی مَحبّتوں کی محور و مرکز شخصیت کی تضحیک کی جائے گی تو پھر امن و امان کس طرح قائم رکھا جاسکتا ہے؟ مسلمان ظلم کی ہر بھیانک صنف برداشت کر سکتا ہے مگر نبیِ آخرالزّماں کی توہین ہماری روحوں کو لرزا جاتی ہے۔جب نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا مذاق اڑایا جاتا ہے تو ہمیں اپنی زندگیوں کے ماہ و سال بے معنی، بے رنگ اور بد ذائقہ دِکھائی دیتے ہیں، پھر جدید یورپی تہذیب کی گود میں بیٹھ کر اپنی زندگی گزارنے والے مسلمان بھی وہ کام کر جاتے ہیں، جس کا تصوّر ہی محال ہے۔۔حیات عبداللہ کا شعر ہے۔
اہلِ دل کے دلوں کی ہیں تسکین آپؐ
اہلِ ایماں کا سارا جہاں آپؐ ہیں