قرآن نے کفار کے تصور و مقاصد ِ علم کا ذکر کیا ہے اور اہلِ ایمان کو تنبیہ کی ہے کہ ان مقاصد واصولوں کے ساتھ قایم ہونے والے علوم سے بچیں۔ اہلِ مغرب، جن کے اہلِ کفر ہونے میں کوئی شبہ نہیں ، نے بھی قدیم کافروں کی روش اختیار کرتے ہوئے انھی تصورات و مقاصد کو اختیار کیا ہے۔قرآن کی روشنی میں ان تصورات کو بیان کیا جاتا ہے۔
۱۔ حصول ِعلم کا مقصد حصولِ دنیا ہے۔
قرآن کافروں کا بنیادی علمی اصول بیان کرتا ہے۔
وَلَمْ يُرِدْ إِلَّا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ذَلِكَ مَبْلَغُهُمْ مِنَ الْعِلْمِ (النجم۔۲۹، ۳۰)
وہ دنیاوی زندگی کے سوا کچھ نہیں چاہتے ۔ ان کا مبلغ و مقصدِ علم یہی ہے۔
اہلِ مغرب دنیوی زندگی کو اپنے علم کا مقصد ومنزل بناتے ہیں اور ان کے نزدیک کسی علم کی اہمیت اس کی’’ مارکیٹ ویلیو ‘‘ سے طے ہوتی ہے ۔ چناں چہ جدید مغرب نے علم کو کاروبار بھی بنایا ہے اور تجارتی مقاصد (Market Oriented) کو پورا کرنے والا بھی۔جدید مغرب نے اکنامکس، بزنس سٹڈیز، مینیجمنٹ سائسز، کامرس، فنانس، اکاؤٹنگ، آڈٹ اور دیگر بیسیوں علوم کی بنیاد رکھی ہے ان سب کا منتہا دنیوی زندگی ہے۔ مغرب کا بنیاد کردہ کوئی بھی علم سوچ لیں ، اس مقصد کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
۲۔ وہی علوم قابلِ قدر ہیں جن سے دنیا کی زندگی کا ظاہری حسن وراحت بڑھتی ہے
اہلِ کفر کے لیے دنیوی زندگی کا ظاہر جس میں راحتیں ، آسائشیں ، زیب وزینت شامل ہیں ، یہی علوم کا مقصود ہیں۔ قرآن کہتا ہے:
يَعْلَمُونَ ظاهِراً مِنَ الْحَياةِ الدُّنْيا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غافِلُونَ (الروم۔۷)
وہ دنیا کی زندگی کے ظاہر کا علم رکھتے ہیں اور وہ آخرت سے غافل ہیں۔
آج کے مغرب میں کاسمیٹکس کا سازو سامان اور کاسمیٹک سرجری کھربوں کے کاروبار کا ذریعہ ہے ۔ میڈیسن کمپنیاں اربوں روپے انویسٹ کر رہی ہیں کہ موت کے خاتمے کو ممکن بنایا جاسکے۔جینیٹک انجینئر نگ اس کوشش میں ہے کہ جینز میں تبدیلی کرکے بیماریوں سے آزاد بچے پیدا کیے جا سکیں۔
جسمانی تراش خراش اور آرائش ایسی
وَإِذا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسامُهُمْ(المنافقون۔۴)
آپ جب انھیں دیکھیں تو ان کے جسموں کا حسن آپ کو حیرت میں مبتلا کردے۔
تعمیرات ایسی أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ وَتَتَّخِذُونَ مَصانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ(الشعراء۔۱۲۸، ۱۲۹)
کیا تم ہر بلند مقام پر عبث یادگاریں بناتے ہواور عمارات بناتے ہو گویا کہ تم ہمیشہ رہوگے
۳۔انسان کا مال اس کے فن اور علم (Skill and Knowledge) کا نتیجہ ہوتا ہے
مغرب نے یہ یقین دلایا ہے کہ ہر انسان کا رزق اس کے علم و مہارت کا نتیجہ ہے ۔ لہٰذا اگر اپنے لیے رزق کی کشائش چاہتے ہو تو جدید علم حاصل کرو ۔ قرآن
نے قارون کا ذکر کیا ہے کہ اسے اہلِ ایمان نے کہا جو مال تجھے اللہ نے دیا ہے اس میں آخرت کے لیے بھی خرچ کر اور احسان کا رویہ اختیار کر۔ کہنے لگا
قالَ إِنَّما أُوتِيتُهُ عَلى عِلْمٍ عِنْدِي (القصص۔۷۷، ۷۸)
بولا: مجھے(سارا مال ) میرے علم کے باعث ملا ہے ۔
اگر کسی علم کے ذریعے مال کا وفور اور حصول ممکن نہیں ہورہا تو وہ علم جدید مغرب کے نزدیک وہ علم فرسود ہ (Out Dated) ہے ۔جدید علم کا مقصد ’’جمع و کثرت ِ مال ‘‘ کی مہارتیں سکھانا ہے نہ کہ ’’انفاق‘‘ کی تربیت کرنا ۔
۴۔ وحی الٰہی کے انکار اور ایمان کی تردید کفار کے علم کا نتیجہ ہوتا ہے
قرآن کفار کے علم کے بارے میں تبصرہ کرتا ہے
فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ(غافر۔۸۳)
جب ہمارے رسول کھلے دلائل لے کر ان کے پاس آئے تو اپنے علم پر ناز کرنے لگے اور اسی چیز کے گھیرے میں آگئے جس کا مذاق اڑاتے تھے
اس لیے آج کوئی مغربی اسٹرانومی کی بنیاد پر آسمانوں کے وجود کا انکار کرتا ہے اور قرآنی آیات کا استہزا کرتا ہے۔ کوئی ڈارون کی تھیوری کی بنیاد پر خدا اور مذہب کے ارتقاء کا نظریہ پیش کرتا نظر آتا ہے۔ کوئی کاسمالوجیکل تھوریز کے بل بوتے پر خدا کے وجود سے منکر ہے۔ کوئی فلسفے اور جدید سائنسی نظریات کی بنیاد پر معجزات سے منکر ہے ۔سب فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ اپنے علم پر ناز کرکے آپے سے باہر ہورہے ہیں۔
۵۔اہل ِ کفر ظنیات و خواہشات کو علم قرار دیتے ہیں
قرآن کہتا ہے کہ اہلِ کفر کے علوم اٹکل پچو اور گمانات کی اساس پر استوار ہوتے ہیں ۔ زبانی جمع خرچ اور محض دعووں کو ہی علم قرار دیتے ہیں۔
كَذلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذاقُوا بَأْسَنا قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ
ان سے پہلے لوگوں نے بھی تکذیب کا طریقہ اختیار کیا تھا یہاں تک کہ ان کو ہمارے عذاب کا مزہ چکھنا پڑا۔ان سے کہا گیا تھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی علم نام کی چیز ہے تو سامنے لے کے آؤ لیکن اصل میں تو تم صرف گمان کی پیروی کرتے ہو
جدید مغرب کے سارے علوم تھیوریز سے لبریز ہیں تھیوری کسی فیکٹ کو نہیں بل کہ سائنسی مراد میں ’’ نسبتاً مضبوط اندازے‘‘ کو کہتے ہیں۔ اندازہ، اندازہ ہی ہے چاہے اس کا نام مضبوط اندازہ رکھ لیا جائے اور یقین کے مقابلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ۔ سوشیالوجی، انتھراپالوجی، لسانیات اور دیگر مغربی علوم کی ابتدائی کتابیں اٹھا کر دیکھ لیں اور چاہیں تو آخری درجے کی کتابیں دیکھ لیں۔ سب تھیوریز سے بھری ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر حافظ عثمان احمد