ادھوری، پوری گزارے لائق تقریر تو ہر کس و ناقص کرہی لیتا ہے مگر اس فن کے تقاضوں سے انصاف کرنا، دلوں کے تار چھیڑتے ہوئے دل و دماغ پہ قابض ہو جانا، فکر و نظر کی دنیا تہہ و بالا کرنا اور اس شعر کی صورت جلوہ گر ہونا کہ :
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

ہر ایک کو میسر نہیں ہے. اور جنہیں میسر ہے انہیں میں سے ایک باوقار ہستی کو دنیا ” پروفیسر عبد الرزاق ساجد حفظہ اللہ ” کے نام سے جانتی ہے جو کل رمضان المبارک کی چھبیسویں شب ہمارے ہاں تشریف لائے :
اک شب تھا وہ مہمان میرا
کچھ اور ہی تھا جہان میرا

تھے صحن میں خوشبووؤں کے خیمے
تھا رشکِ چمن مکان میرا

آنجناب بلا کے عہد و پیماں کے پابند ہیں…میں نے عرض بھی کیا کہ” العذر عند الکرام مقبول ” کے تحت زحمت نہ اٹھائیے…مگر آئے اور :

وہ آئے بزم میں اتنا تو فکرؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا اور گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی…کڑھائی شدہ اجلا، نکھرا سفید لباس آپ کی وجاہت کو چار چاند لگا رہا تھا اور اس پہ مستزاد کندھوں کو چھوتی ہوئی پُرسکون زلفیں ہٹو بچو کا پیام سنا رہیں  تھیں…سنا تھا بوليں تو باتوں سے پھول جھرٹے ہیں…بات کی تو یہ افسانہ بھی حقیقت میں ڈھل گیا…بطورِ نقیب سلامی دینے کے لیے الفاظ کی مالا ذہن و دل کے دریچوں میں چھپا رکھی تھی مگر زبان و بیاں پہ دسترس رکھنے والے کے سامنے الفاظ کسمکا کے رہ گئے اور زباں سے ادا ہونے سے انکار کر دیا گویا :

ان سے جو کہنے گئے تھے فیضؔ جاں صدقہ کیے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

” بچوں کے فکری اغوا ” کے عنوان کو کچھ اس طرح نبھایا جیسے کوئی مخلص رہبر صحرا میں گمشدہ قافلے کو لے کر چلے، راستے میں آنے والے خطرات سے آگاہی بھی دے اور منزلِ مقصود تک چھوڑ کر بھی آئے.
اول تا آخر عنوان سے ناطہ نہیں ٹوٹا…قدیم و جدید کا حسین امتزاج اور تلخ و شیریں یادوں کے اس خوبصورت سفر میں سامعین و ناظرین پلک جھپکنا بھول گئے…اپنی زیست کے ورق بھی کھنگالے اور ان سے حقائق و معارف سے پُر استدلال بھی کئے…وہ باتیں سنا رہے تھے اور میں دیوانِ حسرت میں کھویا خودکلامی میں مگن گنگنا رہا تھا :

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقّت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی

کسی اور کا تو پتا نہیں مگر میں یہ ضرور مان گیا :

اب سامنے میرے جو کوئی پیر و جواں
دعوی نہ کرے منہ میں زبان ہے
میں حضرت سودا کو سنا بولتے دیکھا
اللہ رے  کیا نظم بیان ہے

 حافظ عبد العزيز آزاد