سوال (6079)
روایت میں آتا ہے کہ:
عتبہ بن ابی لہب کی شادی نبی ﷺ کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ جب سورۃ “تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ” نازل ہوئی، تو ابولہب نے اپنے بیٹے عتبہ سے کہا کہ “محمد ﷺ کی بیٹی کو طلاق دے دو”۔
عتبہ نے طلاق دے دی اور نبی ﷺ کو برا بھلا کہا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
اللَّهُمَّ سَلِّطْ عَلَيْهِ كَلْبًا مِنْ كِلَابِكَ
“اے اللہ! اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مسلط فرما۔”
بعد میں جب وہ شام کے سفر پر گیا تو قافلہ والے ایک جگہ ٹھہرے۔ رات کو ایک شیر (درندہ) آیا اور سب کے درمیان سے گزر کر سیدھا عتبہ پر حملہ آور ہوا اور اسے ہلاک کر دیا۔
مراجع: یہ واقعہ درج ہے:
سیرت ابن ہشام (ج 1، ص 298)
دلائل النبوۃ للبیہقی (ج 2، ص 303)
تاریخ طبری میں بھی ذکر ہے۔
الاصابہ فی تمییز الصحابہ (ابن حجر، ج 4، ص 85) میں بھی اشارہ موجود ہے۔ کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جواب
یہ واقعہ سخت ضعیف ومنکر ہے۔
علالت کے باوجود مختصرا توضیح وتحقیق پیش خدمت ہے۔
یہ واقعہ مسند الحارث:(541)، إتحاف الخيرة المهرة للبوصيرى:(3467)، إتحاف المهرة لابن حجر، (17784) مستدرک حاکم:(3984)، معجم الصحابة للبغوي:5/ 314(2141)، معرفة الصحابة لأبي نعيم: (6050، 6926)، دلائل النبوة للبيهقي:2/ 338
سند میں ابو عثمان عباس بن الفضل الأزرق راوی کذاب ہے۔
ابن الجنید نے کہا:
ﺳﻤﻌﺖ ﻳﺤﻴﻰ ﻭﺳﺌﻞ ﻋﻦ ﻋﺒﺎﺱ اﻷﺯﺭﻕ، ﻓﻘﺎل: ﻛﺬاﺏ ﺧﺒﻴﺚ، سؤالات ابن الجيد:(209)
امام بخاری نے کہا: ﺫﻫﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ، التاريخ الكبير للبخارى:7/ 5
امام ابن أبی حاتم الرازی نے کہا:
ﻭﺳﻤﻌﺖ ﺃﺑﻲ ﻳﻘﻮﻝ ﺫﻫﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ، ﻭﺗﺮﻙ ﺃﺑﻮ ﺯﺭﻋﺔ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻭﻟﻢ ﻳﻘﺮﺃﻩ ﻋﻠﻴﻨﺎ، الجرح والتعدیل: 6/ 213
اس راوی کا تفصیل سے ترجمہ دیکھیے تاریخ بغداد:14/ 15 میں
اس کا شاہد دلائل النبوة لأبي نعيم: (380) میں ہے اس سند میں ایک وجہ ضعیف محمد بن حمید راوی کا ضعیف ہونا ہے۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ




