خلاصہ یہ ہے کہ بلاشک وشبہ کتاب و سنت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح جاننا ہی حقیقی علم ہے اور اسی علم کے حاملین علماء کے وارث ہیں، یہی وہ علماء ہیں جن کی فضیلت قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بلا واسطہ تعلق تھا تو انہیں قرآن، تفسیر قرآن، عقائد، حدیث اور فقہ وغیرہ کے لیے کسی علم و فن کی ضرورت نہیں تھی، سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت سے بیک وقت حاصل ہو گیا ۔
اب باری آئی ان لوگوں کی کہ جن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بلا واسطہ تعلق نہیں، انہوں نے قرآن مجید کی درست قراءت سیکھنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سینہ بسینہ منتقل ہونے والی قراءت کو فن تجوید و قراءت کی صورت میں مرتب کر دیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قراءت سیکھی جا سکے، تفسیر قرآن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی راہ نمائی کی ضرورت پڑی تو احادیث و آثار کے محتاج ہوئے، پھر اُن کے استناد کے لیے سلسۂ سند متعارف ہوا، کتب احادیث وجود میں آ گئیں، اب راویان سامنے آئے تو علم اسماء الرجال، فن جرح وتعديل معرض وجود میں آ گئے کہ ان کے ذریعے راویوں کو پرکھا جا سکے، علم حدیث کے دیگر شعبے متعارف ہوئے۔
عبادت و معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت و راہ نمائی کی ضرورت پیش آئی تو احادیث سے استنباط و استدلال کے طریقے ایجاد ہوئے کہ جن کی روشنی میں نصوصِ وحی کے مجموعی طور پر اسلام کے قواعد کی روشنی میں معانی متعین ہو سکیں ۔
اسلام میں دوسری اقوام داخل ہوئیں تو عجمی طلباء کو لسانِ عرب جاننے کی ضرورت پیش آئی تاکہ وحی کی زبان کو اصل کے اعتبار سے اسی طرح سمجھا جائے جیسا خود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو کہ خود عرب تھے، عرب زبان و ادب کے ترقی یافتہ دور میں موجود تھے، انہوں نے سمجھا تھا، اس کے لیے علم اللغات، نحو و صرف اور دیگر قواعدِ عربیہ وجود پذیر ہوئے۔
اب ہر حقیقت پسند آدمی جانتا ہے کہ جو شخص جس قدر تجوید و قراءت میں ماہر ہو گا وہ اسی قدر قراءت نبوی پر ہو گا اور اس نبوی وارثث کا حامل ہو گا اور جو جس قدر اس سے دور ہو گا وہ اسی قدر جہالت کے قریب ہو گا۔
جو شخص جس قدر حدیث و آثار اور علم رجال، جرح و تعدیل میں ماہر ہو گا وہ اسی قدر فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی معرفت رکھنے والا اور اس نبوی میراث کا وارث ہو گا اور جو جس قدر اس سے دور ہو گا وہ اسی قدر جہالت کے قریب ہو گا۔
جو بندہ جس قدر عربی زبان و ادب سے واقف ہو گا وہ اسی قدر لسانِ وحی کو سمجھ سکے گا اور اسی قدر انبیاء کے ورثاء کی صف میں شامل ہونے کی اہلیت رکھے گا۔
اب ان تمام علوم وفنون کی بنیادی مفاتیح کو کسی علاقے کے علماء کوئی کورس یا ڈگری بنا کر اسے معیار بنا دیں تو اس پر چیں بچیں ہونا کسی ذاتی عناد و بغض کا ہی شاخسانہ ہو سکتا ہے کوئی علمی بات نہیں۔
پندرہویں صدی میں کسی کا دعوی کہ ان تمام علوم و فنون کو بائی پاس کر کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم – جو بذات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے- ان کی طرح کتاب و سنت کا علم حاصل کیا جا سکتا ہے یا کوئی عالم کہلوا سکتا ہے تو وہ یا تو جان بوجھ کر دھوکہ دے رہا ہے، یا کسی بہروپیے کے لیے پناہ گاہ تیار کر رہا ہے۔
بلکہ ایسا دعوی کرنے والے کی مثال اس “پی ایچ ڈی ڈاکٹر حافظ” کی طرح ہے جو آج کہے کہ میڈیکل کے ابتدائی دور میں چونکہ کوئی ڈگری نہیں ہوتی تھی کسی تعلیمی سلسلے سے گزر کر ڈاکٹر کا لیبل نہیں لگتا تھا لہذا آج ان تمام ڈگریز کو ختم کر دینا چاہیے، بنا کسی قاعدے قانون کے زمانہ قدیم کے ابتدائی اطباء کی طرح ہر فرد کو مہارت حاصل کر کے لوگوں کے علاج کی اجازت ہونی چاہیے۔ یقیناً اگر کوئی ایسا سوچے بھی تو عقلاء یہی کہیں گے کہ “حافظ ڈاکٹر صاحب” سٹھیا گئے ہیں۔ اللہ تعالی انہیں جلد از جلد شفا دے۔

حافظ محمد طاھر