سوال (1275)

ایک شخص عرب ممالک میں سے کسی ملک میں رمضان کا چاند دیکھتا ہے ، اور کچھ روزے رکھنے کے بعد پاکستان آ جاتا ہے ، جب پاکستان میں 29 روزے ہوں گے تو اس شخص کے تیس مکمل ہو جائیں گے اور پاکستان میں اگر 30 روزے ہوتے ہیں تو اکتیسواں روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

ہر علاقے کی اپنی رؤیت ہے۔ جو شخص جس علاقے میں ہے اس علاقے کی رؤیت کے اعتبار سے عمل کرے گا. سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی بھی یہی ہے اور وہ فرماتے ہیں “اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی طرح حکم دیا ہے”
امام ترمذی رحمہ اللہ یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں

” والعمل على هذا الحديث عند أهل العلم أن لكل أهل بلد رؤيتهم”

اہل علم کے نزدیک اسی حدیث پر عمل ہے کہ ہر علاقے والے اپنی رؤیت کا اعتبار کریں گے
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح کا باب قائم کیا ہے اپنی صحیح میں.

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

30 کا عدد مہینے کا حتمی اختتام ہے ، لھذا 31 کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے ، خواہ نفل کی نیت سے ہو ، البتہ عید دوسرے دن جماعت کے ساتھ ہو گی

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ اگر اس کے برعکس ہو کہ کوئی شخص پاکستان سے سعودیہ چلا جائے تو وہ کتنے روزے رکھے گا ؟

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

اسلامی مہینہ نہ 31 کا ہوتا نہ 28 کا بلکہ 29 کا یا 30 کا ہوتا ہے ، جہاں ہے اس کی رؤیت کا اعتبار کرے گا اور اگر اس کے روزے 29 ہو جاتے ہیں تو مہینہ مکمل ہے ، اگر 30 ہو چکے تو 31 واں نہیں رکھے گا البتہ عید انہی کے ساتھ اگلے دن کرے گا ، اسی طرح اگر 28 ہوئے تو عید ان کے ساتھ کر کے بعد میں 29 واں قضاء کرے گا۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

شیخ محترم یہ “لكل اهل بلد رؤيتهم” پر عمل تو نہیں ہوا ہے ۔

فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ

اس پر ہی عمل ہوا ہے ، اگر ایک ہی رؤیت پر اعتبار ہوتی تو وہ اپنے رؤیت پر اڑا رہتا ، اس نے اپنے آپ کو وہاں جا کے بدل دیا ہے ، یہ شخص وہاں جا کر ان کی رؤیت کے تابع ہوگیا ہے ، باقی اسلامی مہینہ 28 کا نہیں ہوتا ہے اس لیے تعداد مکمل کرے گا ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ