سوال (2100)
مندرجہ ذیل فتوی کی تحقیق و وضاحت فرمائیں۔
سوال: سجدہ میں عورت کے کہنی، زمین پر رکھنے کے بارے میں فقہ حنفی میں کیا دلیل ہے؟ اس طرح سجدہ کرنے سے تو عورت کی کتے سے مشابہت ہوتی ہے، کیوں کہ کتا بھی اپنی آگے کی ٹانگیں زمین پر رکھتا ہے، فقہ حنفی کے علاوہ باقی تینوں فقہاء کے نزدیک عورت کو مرد کی طرح ہی سجدہ کرنا چاہیے تو فقہ حنفی میں منع کیوں ہے؟
جواب
مرد و عورت کی نماز میں اصولی فرق ستر اور پردے کا ہے، جیساکہ بعض روایات میں اس کی صراحت ہے، لہٰذا عورت کے حق میں مختلف ارکان کی ادائیگی میں زیادہ ستر (پردے) کا خیال رکھا گیاہے، ان میں سے ایک رکن سجدہ بھی ہے، سجدہ میں خواتین، مرد کی طرح کھل کر سجدہ نہیں کریں گی، بلکہ اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملائیں گی، بازؤوں کو پہلو سے ملا کر رکھیں گی اور کہنیاں زمین پر بچھا دیں گی۔ اس حوالے سے چند دلائل ملاحظہ فرمائیے:
“عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ، فَقَالَ: إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ”. [مراسیل أبي داؤد: ص103 باب مِنَ الصَّلاةِ، السنن الکبری للبیهقي: ج2ص223, جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَة]
حضرت یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں، آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو؛ کیوں کہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے۔
“عَنْ عَبْدِاللّٰه بْنِ عُمَرَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی الله علیه وسلم: إِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَةُ فِي الصَّلاةِ وَضَعَتْ فَخِذَهَا عَلٰی فَخِذِهَا الْاُخْریٰ، فَإِذَا سَجَدَتْ أَلْصَقَتْ بَطْنَهَا فِي فَخِذِهَاکَأَسْتَرِ مَا یَکُوْنُ لَها، فَإِنَّ اللّٰهَ یَنْظُرُ إِلَیْها وَ یَقُوْلُ: یَامَلَائِکَتِيْ أُشْهِدُکُمْ أَنِّيْ قَدْغَفَرْتُ لَها”. [الکامل لابن عدي ج 2ص501، رقم الترجمة 399 ،السنن الکبری للبیهقي ج2 ص223
باب ما یستحب للمرأة الخ،جامع الأحادیث للسیوطي ج 3ص43 رقم الحدیث 1759]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لیے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں: اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔
“عَنْ أَبِيْ سَعِیْدٍالْخُدْرِيِّ رضي الله عنه صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰه صلی الله علیه وسلم أَنَّه قَالَ: … کَانَ یَأْمُرُالرِّجَالَ أَنْ یَّتَجَافُوْا فِيْ سُجُوْدِهِمْ وَ یَأْمُرُالنِّسَاءَ أَنْ یَّتَخَفَّضْنَ”. [السنن الکبریٰ للبیهقي: ج 2ص222.223 باب ما یستحب للمرأة… الخ]
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے) جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر) سجدہ کریں۔
“عن الحسن وقتادة قالا: إذا سجدت المرأة؛ فإنها تنضم ما استطاعت ولاتتجافي لكي لاترفع عجيزتها”. [مصنف عبدالرزاق ج 3ص49 باب تکبیرة المرأة بیدیها وقیام المرأة ورکوعها وسجودها]
حضرت حسن بصری اور حضرت قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے تو جہاں تک ہوسکے سکڑ جائے اور اپنی کہنیاں پیٹ سے جدا نہ کرے؛ تاکہ اس کی سرین اونچی نہ ہو۔
“عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ”.
[مصنف ابن أبي شیبة: رقم الحديث 2704]
ترجمہ: حضرت مجاہد رحمہ ﷲ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے، جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔
“عن عطاء قال: … إذا سجدت فلتضم يديها إليها، وتضم بطنها وصدرها إلى فخذيها، وتجتمع ما استطاعت”. [مصنف عبدالرزاق ج : 3 ص: 50 رقم: 5983]
حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنے بازو اپنے جسم کے ساتھ ملا لے، اپنا پیٹ اور سینہ اپنی رانوں سے ملا لے اور جتنا ہو سکے خوب سمٹ کر سجدہ کرے۔ فقط واللہ اعلم
جواب: اس حوالے سے جتنے بھی دلائل دیے جاتے ہیں، وہ سنداً سخت ضعیف ہوتے ہیں، آپ الکامل لابن عدی اور مراسیل ابی داؤد دیکھ لیں کہ حوالوں اور سند کی کیا حیثیت ہے، ان میں سے کسی کی بھی سند صحیح نہیں ہے، لہذا اس حوالے سے ہمارا موقف بالکل واضح ہے کہ خواہ مرد ہو یا عورت ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نماز پڑھنی ہے، باقی جہاں وضاحت تھی، وہاں وہ وضاحت کردی گئی ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ بغیر دوپٹے کے بالغہ عورت کی نماز قبول نہیں کرتا ہے، باقی ایسی کوئی روایت نہیں ہے جو فرق واضح کرے اور پائے ثبوت تک پہنچ جائے، اس پر کام ہو چکا ہے کہ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ، قاری خلیل الرحمٰن جاوید حفظہ اللہ اور مولانا محمد حنیف منجاکوٹی کی کتابیں موجود ہیں، ان کتابوں کے علاؤہ اور بھی کتابیں مل سکتی ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
عورت ومرد کے طریق نماز میں کوئی فرق کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے اور یہاں جو بعض مرفوع روایات ہیں وہ ثابت نہیں ہیں، اس تحریر میں پہلی روایت یزید بن أبی حبیب پر مرسل ہے اور مرسل روایت ضعیف کی ایک قسم ہوتی ہے۔ اور جو دو موصول روایتیں ہیں، ان کے بارے میں اس مرسل روایت کے بعد امام بیھقی کہتے ہیں۔
ﻭﺭﻭﻱ ﺫﻟﻚ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺜﻴﻦ ﻣﻮﺻﻮﻟﻴﻦ ﻏﻴﺮ ﻗﻮﻳﻴﻦ
[معرفة السنن والآثار للبيهقي: 4055]
اور کہا:
ﻭ ﺭﻭﻱ ﻓﻴﻪ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻨﻘﻄﻊ ﻭﻫﻮ ﺃﺣﺴﻦ ﻣﻦ اﻟﻤﻮﺻﻮﻟﻴﻦ ﻗﺒﻠﻪ
[السنن الكبرى للبيهقى: 2/ 315]
تنبیہ:
امام بیھقی نے یہاں منقطع روایت کو دو سخت ضعیف سند سے مروی روایتوں کے مقابل احسن اس لیے کہا کہ اس سند میں ضعف و علت ان دو سندوں کے ضعف کی نسبت کم ہے۔اور سیدنا عبد الله بن عمر رضى الله عنه سے منسوب روایت پر السنن الکبری للبیھقی میں اسی مقام پر جرح موجود ہے
کہا:
ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺃﺣﻤﺪ: ﺃﺑﻮ ﻣﻄﻴﻊ ﺑﻴﻦ اﻟﻀﻌﻒ ﻓﻲ ﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ، ﻭﻋﺎﻣﺔ ﻣﺎ ﻳﺮﻭﻳﻪ ﻻ ﻳﺘﺎﺑﻊ ﻋﻠﻴﻪ ﻗﺎل الشيخ ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ: ﻭﻗﺪ ﺿﻌﻔﻪ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ ﻭﻏﻴﺮﻩ، ﻭﻛﺬﻟﻚ ﻋﻄﺎء ﺑﻦ ﻋﺠﻼﻥ ﺿﻌﻴﻒ
قال الشیخ کے بعد کا کلام محدث بیھقی کا ہے۔
[السنن الکبری للبیھقی 3199،3200، 2/ 315]
یہ روایت امام ابن عدی کے نزدیک بھی ضعیف ہے السنن الکبری بیھقی میں امام بیھقی نے انہی کا یہ کلام نقل کر رکھا ہے۔
ﻭﺃﺑﻮ ﻣﻄﻴﻊ ﺑﻴﻦ اﻟﻀﻌﻒ ﻓﻲ ﺃﺣﺎﺩﻳﺜﻪ ﻭﻋﺎﻣﺔ ﻣﺎ ﻳﺮﻭﻳﻪ، ﻻ ﻳﺘﺎﺑﻊ ﻋﻠﻴﻪ
[الکامل لابن عدی:2/ 503]
یہ روایت ابن القیسرانی کے نزدیک بھی ضعیف ہے۔
[دیکھیے ذخيرةالحفاظ: 265]
أبو مطیع الحکم بن عبد الله پر تفصیل سے کلام دیکھیے
[الضعفاء الكبير للعقيلى: 312،الجرح و التعدیل:3/ 121،122،المجروحین لابن حبان: 236،میزان الاعتدال: 2181 وغیرہ میں]
اور اسی مقام پر ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے منسوب روایت پر جرح موجود ہے
کہا:
ﻭﻛﺬﻟﻚ ﻋﻄﺎء ﺑﻦ ﻋﺠﻼﻥ ﺿﻌﻴﻒ
[السنن الکبری للبیھقی:2/ 315]
عطاء بن عجلان کے بارے امام علی بن المدینی نے کہا:
ﺿﻌﻴﻔﺎ ﻟﻴﺲ ﺑﺸﻲء
[سؤالات ابن أبي شيبة: 214]
امام یحیی بن معین نے کئ طرح سے کلام کر رکھا ہے ایک جگہ کہا:
ﻟﻴﺲ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﺑﺸﻲء
[تاريخ ابن معين رواية الدوري: 2297]
ایک جگہ یوں ذکر کیا ہے۔
ﻋﻄﺎء ﺑﻦ ﻋﺠﻼﻥ اﻟﺬﻱ ﻳﺤﺪﺙ ﻋﻨﻪ ﻣﺮﻭاﻥ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻛﺬاﺏ ﻭﻫﻮ ﻛﻮﻓﻲ
[تاريخ ابن معين رواية الدوري: 2734]
امام بخاری نے کہا:
ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ
[ التاريخ الكبير للبخارى:6/ 476]
امام نسائی نے کہا:
ﻋﻄﺎء ﺑﻦ ﻋﺠﻼﻥ اﻟﺒﺼﺮﻱ ﻣﺘﺮﻭﻙ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻗﺪ ﻗﻴﻞ ﺇﻧﻪ ﻛﻮﻓﻲ
[الضعفاء والمتروكون: 480]
امام عمرو بن علی الفلاح نے کذاب کہا
[الجرح والتعدیل:6/ 335]
اور مزید سخت جرح کے لیے
[دیکھیے الضعفاء الكبير للعقيلى: 3/ 402 الجرح والتعدیل: 6/ 335 وغیرہ]
ان لوگوں کی جرأت اور ہٹ دھرمی کو دیکھیں کہ جہاں سے اپنے موقف کے لیے بطور حجت دلیل نقل کر رہے ہیں وہیں پر ان روایات پر صاحب کتاب نے کلام نقل کر رکھا ہے، جسے چھپا دیا گیا اور بیان نہیں کیا گیا ہے، جبکہ ان کے اندر وجہ ضعف شدید ہے أبو مطیع اور عطاء بن عجلان پر سخت جرح ہے بلکہ ابن عجلان پر تو کذاب تک کی جرح موجود ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے نے انہیں دو روایت کے بارے بیان کیا ہے:
ﻭﺭﻭاﻩ اﻟﺒﻴﻬﻘﻲ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻘﻴﻦ ﻣﻮﺻﻮﻟﻴﻦ ﻟﻜﻦ ﻓﻲ ﻛﻞ ﻣﻨﻬﻤﺎ ﻣﺘﺮﻭﻙ
[التلخیص الحبیر:1/ 591]
رہے آثار سلف صالحین تو ان کی تحقیق پیش کرنا ضروری نہیں اور نہ ان کی موافقت پر کوئی صحیح مرفوع حدیث موجود ہے، اس لیے عورت ویسے ہی نماز پڑھے گی جیسے مرد پڑھتے ہیں کیونکہ ان کے طریقہ نماز کے فرق پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مرد و خواتین دونوں کے لیے نمونہ، اسوہ حسنہ ہیں اور و صلوا كما رأيتموني أصلي میں سب شامل ہیں الا کہ استثناء اور خاص فرق کی خود سے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم وضاحت فرما دیں اور اسے بیان کرنے والے سب لوگ عادل و ضابط ہوں سند متصل ہو اس میں کوئی علت قادحہ ارسال، تدلیس، شاذ ہونا وغیرہ موجود نہیں ہو تو تب وہ اس فرق سے نماز پڑھ سکتی ہے مگر یاد رکھیں ذخیرہ حدیث میں ہمارے علم کے مطابق کوئی ایسی حدیث موجود نہیں ہے۔
رب العالمین ہمیں صحیح معنوں میں اتباع سنت کے مطابق عبادات واعمال صالحہ بجا لانے کی توفیق عطا فرمائیں۔
والله أعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث ابو انس طیبی حفظہ اللہ