جہاں فیمنزم جیسے زندیقیہ نظریات نے جینڈر اکویلیٹی کے نام پر عورت اور مرد کے طبعی، فطری فرق اور ذمہ داریوں کا مساوات کے نام پر عجیب شاخسانہ پیش کر رکھا ہے جسکی بنیاد سرے سے عورت کے ہی خلاف ہے.
مشھور فلاسفر اوشو کہتا تھا کہ یہ فیمنزم کی تحریک کے نتائج پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مردوں کی ہی ایک شرارت تھی کہ عورتوں کو یوں سر بازار ذلت و پستی کا لباس پہنا کر نچایا جائے.!
بہرحال کچھ مذیبی لوگوں نے بھی عورتوں کے حوالے سے کچھ ایسے تقییدات و تنقیدات کا ہار پرویا ہے کہ یوں لگتا ہے مذہب عورت کو فطری حقوق سے محروم کررہا ہے اور اسے مرد کے ہم پلہ نہیں سمجھتا گویا کہ یہ چیز عورتوں کی سیلف اسٹیم اور نفسیاتی تحریک پر کاری چوٹ لگا رہی ہے.
اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ خود یورپ میں عیسائیت اور پاپائیت کے نام پر عورتوں پر ظلم ڈھائے گئے ہیں اور ہندوازم یا قبائلی مذاہب وغیرہ بھی عورت کے ساتھ غلاموں والا ہی سلوک کیا گیا ہے جسکا اثر ہم آج بھی برصغیر میں روایات اور سماجی مساوات کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں.
اب ایک سیکولر اور لبرل ذہن جو ویسے ہی مذہب کو قیود اور موانع کا نام دیتا ہے وہ کیسے یہ فرق کرنے کی کوشش کریگا کہ کونسا مذہب عورت کو اسکے فطری حقوق دیتا ہے؟ یا سبھی ایک ہی طرح عورت کے ساتھ برتاؤ کررہے ہیں.
بہرحال اسلام کے نام پر بھی کچھ لوگ عورتوں کو ادھ عقل یا ادھ دین والیاں کہہ دیتے ہیں اور انکی صنفی نزاکت کو کمزوری سے تعبیر کر دیتے ہیں حالانکہ اسکی نزاکت سے بڑھ کر دنیا کی کوئی چیز پاور فل اور پر کشش نہیں جو بڑوں بڑوں کو سرنگوں کروا دے.!
اسلام میں جہاں عورت کو حبالة الشیطان(شیطان کا جال) یا مردوں کے اوپر بھاری فتنہ کہا گیا ہے اس سے اگر کوئی یہ مراد لیتا ہے کہ اسلام عورت کو پروٹوکول نہیں دے رہا تو اسے اپنی عقل کا علاج کروانا چاہئے اور زاویہ فکر کو اعتدال و سداد کی راہ پر لگانا چاہیے جو کلی طور پر اسلام کا عورت کے بارے نظریہ نہ سمجھ سکا.!
جیسے اولاد اور مال فتنہ ہے کبھی کبھار تو جوانی سے بڑا فتنہ نہیں ہوتا بعض اوقات علم بھی فتنہ بن جاتا ہے تو کیا یہ چیز انکی اہمیت میں کمی کا باعث ہے یا انکی اہمیت اور اثر و رسوخ کے زیادہ ہونے کی نشانی ہے؟
ایسے ہی عورت کو فتنہ کہا گیا ہے کہ کبھی کبھار یہ دین میں آزمائش بن جاتی ہے جیسا کہ ہم دیکھ بھی رہے ہیں.
ادھ عقل یا ادھ دین کے ہونے کا تعلق عورتوں کی طبعی مجبوریوں سے ہے جیسا کہ مردوں کی بھی کچھ طبعی کمزوریاں اور مجبوریاں ہیں اسکا عیوب سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ محدثین نے اس پر بھرپور صراحت کی ہے.!
عورت کی صنفی نزاکت میں اسکے ذہن کا ماحول کے اعتبار سے پروان چڑہنا اور ذہنی پختگی کا آہستہ آہستہ مکمل ہونا، یہ انسانوں کی سماجی ذمہ داری کی تقسیم کی وجہ سے ہے اب عورت کے ذمہ ایسا کوئی کام ہے ہی نہیں جو اسے ان حالات سے گزرنے پر مجبور کرے جسکے بعد انسانی عقل میچورٹی کی انتہاؤں کو چھوتی ہو مثلاً کسی بھی مہذب معاشرے میں عورتوں سے ان ذمہ داریوں یا جنگوں میں شرکت کا نہیں کہا جاتا کیونکہ یہ مردوں کے ہی کام ہیں فلھذا عورت کا کام گھر کی حفاظت کرنا اور بچوں کی پرورش کرنا وغیرہ ہے اور وہ اسے اچھی طرح کرے اسے اتنا ہی ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے.!
آج مغرب کی جو عورتیں جاب کی وجہ سے فیمنزم کا نعرہ لگاتی ہیں انہی کے بیانات پڑھے جائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس چیز سے کس قدر نالاں ہیں کہ جب وہ گھر جاب کر کے آتی ہیں تو نہ انکو انکا شوہر وقت دے پاتا ہے اور نہ یہ اپنے بچوں کو وقت دے پاتی ہیں نوکری کا کیا فائدہ جب خوشی ہی نہیں مل رہی؟عورت اور مرد دونوں فطری زندگی سے دور ہیں اور ایک دوسرے سے ناخوش ہیں..!

بہرحال اسلام نے عورت کا جو پروٹوکول اور ذمہ داری بنتی تھی اسکو دی ہے اور اسے فطری اصول بتائے ہیں نہ کہ خوش نما نعرے لگا کر اسے فطرت سے دور کیا.!

حدیث میں نبی علیہ السلام کا واضح فرمان موجود ہے

“إِنَّمَا النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ.

ترجمہ: عورتیں تو مردوں کی ہی مثل ہیں.[سنن ابی داود/الطہارة ٩٥. ٢٣٦، سنن ابن ماجہ/الطہارة ١١٢/٦١٢،تحفة الأشراف: ١٧٥٣٩، مسند احمد٦/ ٢٥٦]

امام ابن الاثیر اس حدیث کی شرح فرماتے ہیں لکھتے ہیں

“أي نظائرهم وأمثالهم كأنهن شُققن منهم؛ ولأن حواء خلقت من آدم عليه الصلاة والسلام.

یعنی عورتیں مردوں کی ہی مثل اور جیسی ہیں کیونکہ وہ انہی سے نکلی ہیں جیسا کہ ہماری ماں حواء علیہ السلام ہمارے باپ آدم علیہ السلام سے نکلی ہیں.”
[عون المعبود، ج ١، ص ٤٠٠]
امام مناوی اور ابن منظور رحمھما اللّٰہ فرماتے ہیں:

أنها نظائر الرجال وأمثالهم في الأخلاق والطباع والأحكام

ترجمہ: یعنی عورتیں اخلاق،طبیعت اور احکام میں مردوں کی ہی مثل ہیں( الا کہ کسی خاص حکم کیں شریعت کا کوئی خاص حکم آجائے)
یہی بات امام طیبی،خطابی اور عینی رحمھم اللّٰہ نے اس حدیث کی وضاحت میں فرمائی ہے.!

اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ

[البقرة : ۲۲۸]
عورتوں کے بھی وہی حقوق ہیں جو مردوں کے ہیں. یہاں بات تو میاں بیوی کی ہورہی ہے جو ضمنا دیگر پر بھی فٹ آتی ہے یعنی جو حقوق و مساوات مردوں کو حاصل ہیں وہی عورتوں کو! اب جو ذمہ داری عورت کی ہے وہ مرد نہیں کرسکتا اور اسکے برعکس بھی ایسا ہی ہے یہ تو دینی لحاظ سے ہے، اگر طبعی طور پر بھی دیکھا جائے تو جو کام عورت کرسکتی ہے وہ مرد نہیں کرسکتا اور جو مرد کرسکتا ہے وہ عورت نہیں کرسکتی یعنی ہر جنس کی ایک اپنی ڈومین اور خاصیت ہے فیمنزم یا لبرل نظریات میں جینڈر اکویلٹی کے نام پر دو جنسوں کی فطری فرق، ذمہ داریوں اور پروٹوکول کو ملا یا جارہا ہے اسکے سوا کچھ نہیں.

عورت کا پروٹوکول اسی میں ہے جو مرد و عورت کی ذمہ داری کے متفاوت ہونے میں اسکی صنفی کمزوریوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے.
اسلام کی تاریخ میں جس طرح مردوں نے انسانی خدمت میں علم و حکمت اور سماجی خدمات کا فریضہ انجام دیا ہے ویسے ہی عورتوں نے دیا ہے جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی رحمه الله نے اپنی كتاب “الدرر الكامنة في أعيان المئة الثامنة” میں آٹھویں صدی ہجری کی ١٧٠ محدثات کا ذکر کیا ہے، جن میں سے ٥٤ ان کی استاذہ تھیں..!

اسی طرح امام سخاوی رحمه الله نے اپنی “الضوء اللامع لأهل القرن التاسع” میں نویں صدی ہجری کی اپنی قریبا ٨٥ خواتین استاذہ کا ذکر کیا ہے..!
یہ تو وہ ہے جو سامنے ظاہر ہے جبکہ عورت کی اصل خدمات تو چھپی ہوتی ہیں یعنی گھر میں بچوں کی تربیت اور ازدواجی زندگی میں کردار.
ایسے ہی تو اللہ تعالیٰ نے عورت کا ماں کی صورت میں حقوق ادا کرنے کو اپنی عبادت کے متصل بعد رکھا ہے اور بیوی کے حقوق کی بابت ایک لمبی تفصیل ہے بیٹی کو رحمت کہا بلکہ جتنے بھی صلحاء اور انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں انکے پاس زیادہ تر اولاد بیٹیوں کی صورت میں ہی تھی جو بیٹی کی رفعت کا منہ بولتا ثبوت ہے.!

عمیر رمضان