آزادی کا جشن منانا قطع نظر کہ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

قومی دن اتحـــاد کی علامت ہوتا ہے،
شکـــر کا دن ہوتا ہے۔
یہ تجـــدید عہد کا دن ہوتا ہے،
اپنے مقصـــد کی تجـــدید کا دن۔

ہماری قوم 14 اگست کو 73 واں یــوم آزادی منائے گی۔ اور میں سوچ رہا ہوں ہم کس چیز کا جشن منانے جا رہے ہیں۔

کیا ہم ایک زندہ قوم ہیں؟

کیا ہم میں اتفاق و اتحاد ہے؟

ہم کس چیز کا تجدید عہد کرنا چاہتے ہیں؟

کیا ہمیں اپنا مقصد یاد بھی ہے؟

کیا اللّٰــــــہ پاک نے ارض وطن میں جو نعمتیں عطا کی ہیں ان کا مناسب اور قوم و ملک کے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں؟

سچ تو یہ ہے کہ ہم قیام پاکســتان کا مقصــد ہی بھول گئے ہیں۔

کیا آپ کو یاد ہے؟

کیا ہماری نئی نسل کو یاد ہے؟

برصغیر کے مسلمانوں نے اللّٰــــــہ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے۔

اللّٰــــــہ سے یہ وعدہ ہمارے آباؤ اجداد نے کیا تھا۔ اس وعدے کو پورا ہم نے کرنا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وعدے کا احساس تک ہم کو نہیـــــں ہے۔

ہمارے قائد کو اس کا احساس تھا، انہوں نے فرمایا تھا

“ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیـــــں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم آزاد رہ کر اســلام کے زریں اصولوں کو آزما سکیں”

اب یہ ہمارا فرض تھا کہ ہم تکمیل پــاکستـان میں اپنا کردار ادا کرتے، پــاکســتان کو اسلامی ماڈل بنانے، شریعت کے نفاذ کی عملی کوشش کرتے

اور پاکستان کی ترقی کے لئے دن رات محنت و مشقت کرتے اگر ہم نے اپنے یہ فرائض پورے کیے ہیں تو ہم آزادی کا جشن منانے کا حق رکھتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جشن کس بات کا منا رہے ہیں؟

کیا ہم کمر توڑ مہنگائی کا جشن منا رہے ہیں؟ جس نے غریبوں سے جینے کا حق چھین لیا ہے، ضروریات زندگی نصف آبادی کو میسر نہیـــــں ہیں۔

دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کو علم ہی نہیـــــں کہ غربت کیا ہوتی ہے؟

نہ ہی وہ بے روزگاری کے عفریت سے آگاہ ہیں، نہ ہی ان کو آٹا، چینی، گھی، دال، سبزی کی قیمتوں کا علم ہے۔

مہنگائی دور کر کے،

لوٹی دولت واپس لا کر،

لوڈشیڈنگ ختم کر کے،

بجلی سستی کر کے،

انصاف فوری اور سستا کر کے،

اسلامی آئین بنا کر یا جو آئین ہے اس کے نفاذ کی ہی کوشش کر کے،

تعلیم، ہسپتال، ٹریفک نظام، ٹریفک قانون پر عمل کرنے کے بعد،

بے روزگاری کا خاتمہ کر کے جشن مناتے،

ایسے حالات میں جو عوام بنیادی حقوق کے لے ترس رہے ہوں ضرورت زندگی مناسب داموں خرید نہ سکیں، ایسے میں تو ریاست اپنا مقصد ہی کھو دیتی ہے،

بھلا وہ کس طرح آزادی کا جشن منائے؟

کیا ہم جشن لاقانونیت منا رہے ہیں۔ ملک میں قانون صرف غرباء کے لیے ہے۔

پیسے والا ،اختیار والا قتل بھی کر سکتا ہے اور اسے کوئی خوف نہیـــــں ہے۔

اس لاقانونیت سے ہمارے اخبار بھرے پڑے ہیں ملک میں انصاف نام کی کوئی چیز نہیـــــں ہے۔ بے انصافی بکتی ہے

جس ملک کی عدالتوں میں انصاف نہ ہوتا ہو فیصلوں میں تاخیر اتنی کہ زندگی گزر جائے۔ مقدمات کا فیصلہ نہ ہو۔

ہم 73 سال میں اپنے ملک کا قراداد پاکستان کے مطابق آئین نہ بنا سکے عمل تو دور کی بات ہے اور دل جلانے کو جو آئین تھا اس کا نفاذ بھی انصاف سے نہ ہو سکا ۔

اگر ہم اردو کو سرکاری و عدالتی زبان بنا لیتے۔ پاکستان سے رشوت خوری، چور بازاری اور اقرباء پروری کا خاتمہ ہو جاتا تو پھر خوب آزادی کا جشن مناتے۔

اللّٰــــــہ پاک نے پاکستان کو اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے یہاں وسیع میدان، پہاڑ، سمندر، صحرا اور جنگل ہیں۔ چاروں موسم ہیں۔

پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے کسی کو انکار نہیـــــں یہ ایک ایٹمی ملک ہے ،

اس میں نمک کی دوسری بڑی کان،
دنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان،
تانبے کی ساتویں،
دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم،اور پیداوار کے لحاظ سے کپاس، چاول، آم، مٹر، خوبانی اور گنا میں خود کفیل اور دنیا میں دوسرے، تیسرے، چوتھے نمبر پر۔

پاکستان دنیا میں زرعی پیداوار کے لحاظ سے 25 ویں اور صنعتی لحاظ سے 55 ویں نمبر پر ہے ۔

پاکستان میں گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے زرعی، صنعتی، معدنی اور افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ساری نعمتیں اللّٰــــــہ نے پاکستان کو دی ہیں۔

ان سے خاطر خواہ فائدہ ہم نے نہیـــــں اٹھایا۔ ملک مسائل کی آگ میں پھنسا ہوا ہے غیر ملکی قرض کے انبار ہیں ۔

ایسے حالات میں ہم آزادی کا جشن کیسے منائیں؟

کہا جاتا ہے معاشرے میں جو بگاڑ ہے وہ کیوں ہے؟

اس کے اسباب کیا ہیں؟ اور اس کا حل کیا ہے؟ انہیں حل کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟

کوئی علم نہیـــــں ہے۔ سب ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔

ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ افراد سے معاشرہ بنتا ہے اس لیے افراد کو پہلے سدھرنا ہو گا، دوسرا نقطہ نظر ہے کہ اجتماعی نظام ہی بگڑ چکا ہے اسے ٹھیک ہونا چاہیے ۔

اس کے لیے ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو صرف قوم و ملک کے لیے فیصلے کرے ۔

ایک بات یہ بھی ہے کہ ان کے لیے جو کہہ رہے ہیں کہ اصلاح کا عمل تدریجی ہونا چاہیے۔

کہ ہم نے غیر مسلموں کی اصلاح نہیـــــں کرنی بلکہ مسلمانوں کی کرنی ہے اس لیے تدریج کی ضرورت نہیـــــں ہے نفاذ کی ضرورت ہے ۔

اسلامی قانون کے نفاذ کی جب نافذ ہو جائے گا۔ تو عمل بھی ہو جائے گا۔

جو اسلام کے دائرے میں ہے یعنی مسلمان ہے وہ تب تک اسلامی قانون نہیـــــں توڑے گا اگر اس کو سزا کا خوف ہو گا۔

کیونکہ برائی میں کشش ہے اس لیے برائی کی طرف انسان کا متوجہ ہو جانا شاید فطری ہے

اور اگر اس پر آزادی ہو تو یہی انجام ہونا تھا جو ہوا ہے، اسے آزادی کا نام نہیـــــں دینا چاہیے، نہ ہی یہ روشن خیالی ہے بلکہ یہ بغاوت ہے اسلامی قانون و شریعت سے۔

کیا ہم اس کا جشن منائیں کہ تہتر سال میں اسلامی نظام حکومت رائج نہیـــــں کر سکے؟

موجودہ حالات میں تجدید عہد کا دن وہ بھی سادگی سے منانا چاہیے

اور اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم حقیقی آزادی کا جشن منانا چاہتے ہیں تاریخ کا فخر بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے کردار و عمل کو اسلام کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔

کیونکہ اسلام کے نفاذ کے لیے اسلامی قلعہ بنانے کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ اس لیے ہمیں چاہیے پہلے قیام پاکستان کے مقصد کو پورا کریں ۔

قیام پاکستان کے تقاضے پورے کریں۔ پھر حقیقی آزادی کا جشن منائیں ۔

 کامـــــران الٰہـــی ظہیـــــر