جامعہ اسلامیہ کے شروع کے سال ڈپلوما آف عریبک لینگویج کی کلاس میں ہمارے ایک استاد ڈاکٹر احمد صُبَیحی اکثر و بیشتر کہا کرتے تھے: “الأدبُ یرفَعُ قَدرَ صاحبِهِ وَإن کانَ جاهلاً”۔۔۔ ادب وتہذیب کسی انسان کی قدر و منزلت بلند تر کرتی ہے، خواہ وہ جاہل ہی ہو۔ مفہومِ مخالف یوں ہوا کہ: بے ادبی و بد تہذیبی ایک انسان کا مقام گرا دیتی ہے، بھلے وہ عالم (پڑھا لکھا) ہی کیوں نہ ہو۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ اس جملے کی جامعیت و صداقت کُھلتی جاتی ہے۔ خاص کر بیرون ملک جا کر مختلف قومیت کے لوگوں سے ملنے اور ان سے تقابل کرنے پر اپنے پیارے وطن اور عزیز ہم وطنوں کا کردار اس مثل کی صداقت کو پختہ تر کرتا نظر آتا ہے۔ حقیقت ہے ہم ایک ہجوم ہیں قوم نہیں، کہ نظم و ضبط، عزت نفس کا پاس، باہمی احترام، تحمل، رواداری، احساسِ ذمہ داری، جذبۂ ایثار، اجتماعیت، قانون کا احترام وغیرہ وغیرہ بے شمار عناصر قوموں کی ترکیب کے لازمی اجزا ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں کوئی ایک جزو بھی من حیث المجموع ہم میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔
وکلا و ڈاکٹرز برادی معاشرے کے دو سب سے پڑھے لکھے طبقے شمار ہوتے ہیں۔ گذشتہ دنوں ان دو طبقوں کی جانب سے جو دھینگا مشتی اور سر پھٹوَّل برپا ہے، اس کے آگے بہیمیت بھی پانی بھرتی نظر آتی ہے۔ ہم زنہار ایک قوم نہیں، تقسیم در تقسیم ہیں۔ مذہب، مسلک، سیاست، پیشہ، رنگ، زبان، ذات پات غرضیکہ ہر سطح پر بٹے ہوئے، اور ایسے بٹے ہوئے کی جڑنا تو دور قریب ہونے پر بھی آمادہ نہیں۔ ہر جتھا ہر گروہ اور ہر طبقہ اپنے آپ میں ایک مافیا ہے اور ہرایک کے اپنے مفادات۔ ہر جتھے کو اپنے ہی مفادات عزیز ہیں خواہ وہ مملکت و ریاست کی قیمت پر بھی حاصل ہوں۔
تعلیم آپ کو تہذیب یافتہ نہ بنا سکے۔۔۔ علم آپ کی شخصیت و کردار میں نہ جھلکے۔۔۔ آپ کا پڑھا ہوا آپ کو شعور نہ بخش سکے تو بخدا آپ سے حیوان بدرجہا بہتر ہیں کہ احسن تقویم کو اسفل السافلین میں بدلتے لمحہ نہیں لگتا۔ حیوانوں کو آپ چند ایام، چند ہفتے، چند مہینے تربیت دیں اور سدھائیں وہ منظم و مرتب ہو جائیں گے، مگر آپ ڈگریوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر بھی حیوانیت کو شرما رہے ہیں۔
اصل شے تعلیم نہیں تربیت ہے۔۔۔ الأدبُ یرفعُ قدرَ صاحبه وإن کانَ جاهلاً۔
با ادب با نصیب۔۔۔ بے ادب بے نصیب
زاہد سعید